1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صحتجرمنی

ہرپیز وائرس انسانی جسم میں پھر سے کیوں جاگ اٹھتا ہے؟

21 مئی 2022

جرمن ریسرچرز کی ہرپیز وائرس کے انسانی جسم پر دوبارہ حملہ آور ہونے سے متعلق تحقیق میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔ طبی ماہرین کو امید ہے کہ اس تحقیق کے نتیجے میں کووڈ کے مرض کے بارے میں تحقیق میں بھی قابل ذکر مدد ملے گی۔

Gürtelrose
تصویر: CHROMORANGE/imago images

چیچک کا مرض ہرپیز وائرس کے سبب لاحق ہونے والا پہلا انفیکشن ہے جس کا تجربہ پریشان کن ہو سکتا ہے تاہم یہ اس مرض کی دوبارہ مستقل فعالیت ہےجو اصل مسائل کو جنم دیتی ہے۔ چیچک یا جلد پر خارش والے چھالے، ہرپیز وائرس کی نو معلوم اقسام میں سے ایک ہے جو  'واریسیلا زوسٹر‘ نامی ایک قسم سے جنم لیتی ہے اور انسانوں کو بیمار کرسکتی ہے۔

ہڈیوں کے گودے کے اسٹیم سیلز سے مہلک بیماریوں کا علاج ممکن

وائرس کی یہ قسم دنیا بھر میں عام ہے اور اسے بچوں میں پائی جانیوالی ایک بیماری کے طور پر جانا جاتا ہے۔ عام طور پر اس کا شکار ہونیوالے بچے با آسانی  شفایاب ہوجاتےہیں لیکن خارش کرنے کی وجہ سے جلد پر چند خراشوں کے نشان باقی رہ سکتے ہیں۔ تاہم اس بیماری سے صحتیاب ہونے کے باجود وائرس متاثرہ بچوں کے جسم میں موجود رہتا ہے۔

ہرپیز وائرس کی یہ قسم دنیا بھر میں عام ہےتصویر: www.idw-online.de

'واریسیلا زوسٹر‘

 'واریسیلا زوسٹر‘ اعصابی خلیوں کی جسامت یا 'گنگیلا' میں داخل ہو کر وہاں رہ جاتا ہے۔ جہاں سے ہرپیز وائرس کی یہ قسم سالوں یا دہائیوں بعد دوبارہ فعال ہو کر 'شنگلز‘ کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔

شنگلز جلدی امراض کی ایک ایسی شکل ہے جس میں مریض کے جسم پر سرخی مائل دانے نمودار ہوتے ہیں اور انہیں کھجانے پر سفید رنگ کی رطوبت کا اخراج ہوتا ہے جو بعد ا‌زاں کھرنڈ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

 'واریسیلا زوسٹر‘ کے علاوہ ہرپیز وائرس کی دیگر ایسی اقسام  بھی موجود ہیں جو متاثرہ افراد کے لیے جلدی امراض کی ایسی شدید پیچیدگیاں پیدا کر سکتی ہیں جن سے انہیں جسمانی اعضاء کھو دینے کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔

اسی طرح ہرپیز وائرس کی اقسام 'ایپسٹین بار‘ اور ٫کپوسس سارکوما‘  انسانوں میں ٹیومر کے امراض کا سبب بنتی ہیں۔

 جرمنی کی ورز برگ یونیورسٹی سے وابستہ وبائی امراض کے ایک ماہر لارس ڈُولکن کا کہنا ہے کہ، '' ہرپیز وائرس اقسام کی ایک اہم بات یہ ہے کہ وہ انسانوں کو پہلی مرتبہ متاثر کرنے کے بعد زندگی بھر کے لیےغیر فعال رہتے ہوئے ان کے جسم میں اپنا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں۔‘‘

بلوچستان کا پہاڑی چشمہ آب ِ شفاء، ’جِلدی امراض کا علاج‘

ڈُولکن اپنے رفقاء کے ساتھ مل کرانسانی جسم میں اچانک دوبارہ فعال ہوجانے والے جرثوموں کے پس پردہ محرکات جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس مقصد کے لئے انہوں نے ہرپیز وائرس فیملی کیA6 نامی قسم کا گہرائی سے مشاہدہ کیا ہے۔ اس ٹیم نے اپنی تحقیق کے ذریعے خلیوں کے ایک ایسے نظام کا پتہ چلایا جس کے ذریعے وائرس انسانی جسم میں خود کو نیند سے بیدار کر لیتا ہے۔

شنگلز جلدی امراض کی ایک ایسی شکل ہے جس میں مریض کے جسم پر سرخی مائل دانے نمودار ہوتے ہیںتصویر: Shotshop/imago images

نیند اور بیداری کے درمیان

پہلی مرتبہ ہرپس وائرس کا شکار ہونیوالے افراد اس کی موجودگی کو محسوس تک نہیں کرتے۔ اصل مسئلہ اس وائرس کا جسم میں دوبارہ فعال ہونا ہے۔ ہرپیز وائرس دوبارہ فعال ہونے کے لیےایک ایسا موقع استعمال کرتا ہے جب انسانی جسم میں موجود مدافعت کا نظام دیگر بیماریوں کےخلاف لڑ رہا ہوتا ہے۔ ذہنی اور اعصابی دباؤ اور ایڈز کی بیماری کے شکار افراد کے ساتھ ساتھ اعضاء کی پیوند کاری کرانے والے مریضوں میں ہرپیز وائرس کے سرگرم ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

ہرپیز وائرس انسانی خلیے کے جینوم میں رہ کر تقویت پکڑتا ہے اور پھر وہیں بے کار پڑے ایسے موقع کی تلاش میں رہتا ہے جب وہ پوری شدت سے اپنے شکار پر حملہ کر سکے۔ اسی دوران ایک خاص قسم کا جینیاتی مواد یا مائیکرواین آر اے اس وائرس کو دوبارہ فعال ہونے میں مدد کرتا ہے۔

ماہر وبا لارس ڈُولکن کا کہنا ہے کہ، '' ہرپیز وائرس کی تقریباﹰ تمام اقسام اپنا مائیکرو این آر اے بناتی ہیں جو اس وائرس کے لئے انتہائی اہم ہے اور بنیادی اہمیت کا حامل ہے، اگر ہم ایک وائرل مائیکرو آراین اے کی پیداوار بند کر دیں تو وائرس کی موت ہوجاتی ہے۔‘‘

بلوچستان میں ’اسکیبیز‘ کے شکار افراد کی حالت تشویش ناک

 وائرل مائیکرو این آر اے ایک ''ماسٹرریگولیٹر‘‘ کے طور پر

  مثال کے طور پر  مائیکرو این آر اے بمقابلہ ایم آراین اے کی طرح چند مخصوص حیاتیات یا پروٹین کی ترسیل کا ذمہ دار نہیں ہوتا یہ نان کوڈنگ جینیاتی مواد سے تعلق رکھتا ہے۔  دوسری جانب ایک وائرل مائیکرو این آر اے  انسانی جینیاتی مواد کے میٹابولزم میں داخل ہو کر ان کی ترقی میں شامل ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں انسانی جسم میں مدافعت کے نظام کو  وائرس کی موجودگی کا پتہ دینے والا مواد یا 'انٹرفیرون آئی‘ کی افزائش متاثر ہوتی ہے۔

ڈُولکن کے مطابق، ''انسانی جسم میں موجود قوت مدافعت سے جڑا یہ واحد نظام نہیں جو وائرل مائیکرو این آر اے سے متاثر ہو تا ہے بلکہ اب تک کی تحقیق میں اس پورے معاملے کی صرف سطح کھرچی گئی ہے۔''

وائرل مائیکرو این آر اے ہرپیز وائرس کے لیے یہ ممکن بناتا ہے کہ وہ انسانی جسم میں قوت مدافعت کے نظام سے بچ سکے۔

کووڈ انیس سے ہرپیز اور پھر طویل کووڈ

 ایک اہم وائرل مائیکرو آر این اے جسے وبائی امراض کےماہر لارس ڈُولکن ''ماسٹر ریگولیڑ‘‘ قرار دیتے ہیں اور یہ ایک بڑی پیش رفت ہے۔  ڈُولکن کے مطابق، '' اس دریافت نے محققین کے لیے یہ ممکن بنا دیا ہے کہ وہ خلیوں کی ساخت پر تجربات کے ذریعے ہرپیز وائرس کی دوبارہ فعالیت کو روک سکیں، یہ اچھا ہو گا کہ انسانی اعضا کی پیوند کاری سے قبل ہرپز وائرس سے متاثرہ غیر فعال خلیوں کو بند کر دیا جائے۔ ‘‘

ہرپیز وائرس انسانی جلد پر حملے کے بعد برسوں اندز جلد میں سویا رہتا ہےتصویر: www.idw-online.de

 ان نتائج کی روشنی میں مزید تحقیق کے زریعے مستقبل میں انسانی جسم میں موجود خلیوں کو دوبارہ فعال کیا جا سکتا ہے تا کہ قوت مدافعت کا نظام ان کے نقصان دہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کر سکے۔

ورز برگ یونیورسٹی میں ماہرین اپنی تحقیق کے ذریعے کووڈ کا مسئلہ حل کرنے میں بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ہرپیز وائرس اکثر کمزور قوت مدافعت پر حملہ کرتے ہیں اس لئے سائنس دانوں کو شبہ ہے کہ یہی وائرس کووڈ کی بیماری کی مختلف شکلوں کی  وجہ بننے میں بھی شامل رہا ہے۔

اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ڈُولکن کہتے ہیں کہ، '' ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ ہرپیز وائرس کورونا انفیکشن کی وجہ سے بھی دوبار حرکت میں آتے ہیں  اور ثانوی نقصان کا سبب بنتے ہیں۔‘‘

فی الحال اس بارے میں سوالات زیادہ اور جوابات کم ہیں لیکن اب سائنسدانوں نے کووڈ کی بیماری کا سبب بننے والے کچھ مشتبہ وائرس کا پتہ چلایا ہے اور ان میں ایک  ہرپیز وائرس  ہے۔

یولیا ویرگن (ش ر / ع ح)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں