دنيا بھر ميں ہر سال لگ بھگ 55 لاکھ افراد کو مختلف مقامات پر سانپ ڈستے ہیں۔ ان میں سے 2.7 ملین افراد کو زہريلے سانپ ڈستے ہيں، جن ميں سے کئی ہلاک ہو جاتے ہيں تو کچھ کو معذوری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اشتہار
نیوز ایجنسی اے ایف پی کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سانپ کے ڈسنے کے بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اس لیے حقیقت میں سانپ کے کاٹنے کے کیسز کی تعداد کافی زیادہ ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہء صحت کے مطابق ہر سال 81 ہزار سے ایک لاکھ 38 ہزار افراد سانپ کے ڈسے جانے سے ہلاک ہو جاتے ہیں جبکہ چار لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں۔ گلوبل سنیک بائٹ انیشی ایٹیو نامی تنظیم کے مطابق اینٹی وینم يعنی سانپ کے زہر کو بے اثر کرنے والی دوا، درکار مقدار کی صرف دو فیصد میسر ہے۔
نیوز ایجنی اے ایف پی کی رپوٹ کے مطابق کینیا کے ایک گاؤں کی چار سالہ رہائشی ایک بچی کی زندگی چار سال پہلے اس وقت بدل گئی جب اسے اور اس کی دو سالہ بہن کو رات میں سانپ نے ڈس لیا۔ اس کی چھوٹی بہن اس حملے میں جانبر نہ ہوسکی اور سانپ کے زہر کے باعث ہلاک ہوگئی۔ لیکن چار سالہ بچی کے جسم کا نصف حصہ فالج زدہ ہو گیا۔ اس بچی کے گاؤں میں ہسپتال تھا ہی نہیں، اس کا والد اسے تیس کلومیٹر دور شہر لے گیا جہاں کے ہسپتال میں اینیٹی وینم موجود نہیں تھا۔ اسے ایک دوسرے شہر کے ہسپتال لے جایا گیا جہاں دو ماہ وہ ہسپتال میں زیر علاج رہی۔ اب اس کے غریب والدین کےپاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ اس کے لیے ایک وہیل چیئر کا انتظام کر سکیں۔
دس زہریلے ترین جانور
دنیا میں زہریلے جانورں کی کمی نہیں۔ بہت سے زہریلے جانوروں کے کاٹے کا علاج دریافت ہو چکا ہے جبکہ ایک بڑی تعداد ایسے جانوروں کی بھی ہے، جن کا شکار ہونے پر انسان کے بچنے کی کوئی امید نہیں۔ دس زہریلے ترین جانوروں کی تصاویر۔
تصویر: Imago/blickwinkel
پانی میں تیرتا ہوا خطرہ
اّسی سینٹی میٹر طویل یہ دریائی سانپ دنیا کے تقریباً تمام دریاؤں میں پایا جاتا ہے۔ اس جانور کا بظاہر دشمن کوئی نہیں۔ تاہم اس کے زہر کی تھوڑی سے مقدار بھی ہلاکت خیز ثابت ہو سکتی ہے۔ سانپوں کی یہ قسم جارحانہ نہیں ہوتی اور یہ ساحلوں کے دور گہرے پانیوں میں ہی پائی جاتی ہے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot/BCI/J. Visser
سی ویسپ یا باکس جیلی فش
آسٹریلیا کے پانیوں میں سی ویسپ جسے باکس جیلی فش بھی کہا جاتا ہے، بڑی تعداد میں پائی جاتی ہے۔ جیلی فش کی یہ قسم استوائی اور نیم مرطوب سمندرں میں بھی موجود ہوتی ہے۔ ان کی چھتری نما ٹانگیں بیس سینٹی میٹر تک لمبی ہو سکتی ہیں۔ اس کا زہر دل، اعصبای نظام اور جلد کے خلیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
تصویر: AP
منڈارینا بِھڑ
منڈارینا بِھڑ کو دیو ہیکل ایشیئن بھڑ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اسے بڑے ڈنک والی بھڑ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا میں پائی جاتی ہے۔ چھوٹے اور درمیانے سائز کے بھنورے بھی کبھی کبھار اس کی غذا بنتے ہیں۔ اس کےتقریباً چھ سینٹی میٹر لمبے ڈنک کاٹنے کی صورت میں انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے زہر سے گوشت جھڑنا شروع ہو سکتا ہے جبکہ مزید بھڑیں بھی اس جانب متوجہ ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرخ پشت والی مکڑی
یہ زہریلی ترین مکڑی ہے اور کسی مکڑے سے زیادہ زیادہ خطرناک ہے۔ اس کے زہر سے جسم میں شدید درد ہوتا ہے اور پٹھے اکڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ نظام تنفس تک پہنچنے کی صورت میں اس زہر سے موت بھی ہو سکتی ہے۔ یہ مکڑی عام طور پر آسٹریلیا میں پائی جاتی ہے تاہم اب جاپان میں بھی اس کے پائے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Getty Images
ڈیتھ اسٹالکر یا زرد بچھو
زرد بچھو شمالی افریقہ سے لے کر مشرقی وسطٰی میں پایا جاتا ہے۔ دس سینٹی میٹر طویل یہ کیڑا پتھروں والے خشک علاقوں میں رہتا ہے۔ یہ پتھروں کے نیچے اور دیواروں میں پڑنے والی دڑاڑیں اس کا گھر ہیں۔ یہ انتہائی پھرتیلا اور زہر سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اس کا زہر اعصابی نظام کو مفلوج کر دیتا ہے۔
تصویر: cc-by/Ester Inbar
گولڈن مینڈک
اس چھوٹی سی مخلوق کو دنیا کا زہریلا ترین مینڈک قرار دیا جاتا ہے۔ کولمبیا میں کوکو انڈیانر نسل کے افراد اس مینڈک کا زہر شکار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/DWaEbP
اصلی سنگ ماہی
استوائی اور نیم مرطوب سمندر اس مچھلی کا گھر ہیں۔ یہ بحیرہ احمر سے لے آسٹریلیا تک کے سمندروں میں پائی جاتی ہے۔ اس مچھلی کے جسم پر موجود کانٹے نما کھال میں زہر موجود ہوتا ہے۔ اگر غلطی سے کوئی ان کانٹوں کو چھو لے تو شدید درد ہوتا ہے اور اچانک سانس بھی رک سکتی ہے۔
تصویر: Imago/oceans-image
بلیو رنگڈ اوکٹوپس (ہشت پا)
اکٹوپس کی یہ قسم بیس سینٹی میٹر طویل ہے۔ اس کی جلد پر موجود نیلے دائرے کسی خطرے کی صورت میں چمکنے لگتے ہیں۔ اس کا زہر بہت تیزی سے جسم میں سرائیت کرتا ہے، ذہن تو پوری طرح سے چاق و چوبند رہتا ہے لیکن جسم حرکت کے قابل نہیں رہتا۔
تصویر: imago/OceanPhoto
جیوگرافر کون (گھونگا)
یہ استوائی سمندروں میں پائی جانے والی گھونگے کی ایک قسم ہے۔ پندرہ سیٹی میٹر طویل یہ جانور اپنے جسم پر بننے نقش و نگار کی وجہ سے یہ بہت ہی قابل دید ہوتا ہے۔ تاہم اس کا حملہ ہلاکت خیز بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے زہر کا توڑ ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/OKAPIA
زوان تھاریا (مرجان)
یہ سمندرکی تہہ میں پائی جانے والے جانور مرجان یا کورال کی ہی ایک قسم ہے۔ بظاہر پودا دکھائی دینے والی یہ مخلوق ایک جانور ہے۔ یہ تقریباً تمام ہی مچھلی گھروں میں موجود ہوتی ہے۔ یہ جانور بھی انتہائی زہریلا ہے اور اس کے کاٹے کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے۔
تصویر: Imago/blickwinkel
10 تصاویر1 | 10
اس سال 21 فروری کو اقوام متحدہ کے ایک ورکنگ گروپ نے 2030ء تک سانپ کے کاٹنے کی وجہ سے ہونے والی اموات کو نصف فیصد تک کم کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ اس ورکنگ گروپ کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق پالیسی سازوں اور ادویات بنانے والی کمپنیوں نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس کی ایک بہت بڑی وجہ متاثرین کی شہریت ہے اور وہاں کی کمزور سیاسی آوازیں۔ اقوام متحدہ کا ورکنگ گروپ 2024ء تک افریقہ میں پانچ لاکھ اینٹی وینم مہیا کرنا چاہتا ہے۔