ہر وقت جوہری جنگ کا خطرہ: سرد جنگ کے دور میں زندگی کیسی تھی
10 اپریل 2022
یوکرین پر روسی حملے سے ایک اور سرد جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ ڈی ڈبلیو کی سوزانے سپورر لکھتی ہیں کہ جی ڈی آر میں بارڈر کنٹرول اور امن مظاہروں کے درمیان پرورش پانا کیسا تھا۔
اشتہار
'سوزین آسانی سے بات کرنے کی لالچ میں آ جاتی ہے،‘ یہ تبصرہ سن 1972 کے موسم گرما میں پہلی جماعت کے آخر میں میری رپورٹ کارڈ میں تھا۔
اس لیے میرے والدین نے جو میرے لیے طے کیا وہ بہت بڑی سزا تھی۔ ہم ٹرین کے ایک سفر میں تھے، بارڈر پر پہنچے اور تلاشی شروع ہوئی، مجھے اس دوران بالکل خاموش رہنا تھا۔ ہم انکل مارکس اور آنٹی فریدہ سے ملنے جا رہے تھے۔ جو میری والدہ کے گارڈین پیرنٹس تھے۔
یہ سرحد وہی تھی جس نے سن 1989 میں دیوار برلن کے انہدام تک جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کیے رکھا۔ وفاقی جمہوریہ جرمنی ایف آر جی اور نیٹو کا رکن مغرب میں اور جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک (جی ڈی آر) اور وارسا معاہدے پر دستخط کرنے والے مشرق میں موجود تھے۔ مغرب میں امریکہ اور مشرق میں سوویت یونین کی قیادت میں، دونوں فریق تقریباً چار دہائیوں تک ہتھیاروں سے لیس ایک دوسرے کا سامنا کرتے رہے ۔
کسی دور کے یہ اتحادی، جنہوں نے دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کے ساتھ مل کر جرمن نازیوں کو شکست دی تھی، امریکہ اور سوویت مخالف نظریات اور نظام، مغرب میں سرمایہ داری اور مشرق میں کمیونزم، سب نے اس اتحاد کو تیزی سے ٹوٹتے دیکھا۔ اس لیے یہ سرحد، جس سے اب ہم مشرق سے نکل کر مغرب میں داخل ہونے کے قریب آ رہے تھے، دنیا کی سب سے محفوظ سرحد تھی۔ یہ واقعی سرد جنگ کی سرحد تھی۔
سرد جنگ کی حیران کن باقیات
ہالینڈ کے فوٹوگرافر مارٹن روئمرز نے گزشتہ دو عشروں کے دوران سرد جنگ کے دور کے بچ جانے والے بنکرز، ٹینکوں، نگرانی اور عسکری تربیت کے مراکز کی بےشمار تصاویر اتاری ہیں۔ ان تصاویر کی نمائش برلن میں جاری ہے۔
تصویر: Martin Roemers
غرق ہونے کے قریب
سرد جنگ کے دور میں تعمیر کیا جانا والا یہ بنکر لیٹویا کے قریب بحیرہ بالٹک میں تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم اب وہ وقت دور نہیں، جب یہ پانی کے نیچے ہو گا۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے سے 1989ء میں دیوار برلن کے انہدام تک کا وقت سرد جنگ کا دور کہلاتا ہے۔ اس دوران سابق سوویت یونین اور اس کے حامی کمیونسٹ ممالک کے زیادہ تر مغربی ریاستوں کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔
تصویر: Martin Roemers
بدترین صورت حال کی تیاری
مشرق اور مغرب، دونوں خطوں میں بنکرز بنائے گئے تھے، میزائل نصب کیے گئے تھے اور نگرانی کے مراکز قائم کیے گئے تھے تاکہ خود کو دشمنوں سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس تصویر میں موجود یہ ایٹمی بنکر مغربی جرمن فوج نے کسی ممنکہ جوہری جنگ سے بچنے کے لیے لاؤراخ نامی علاقے میں تعمیر کیا تھا۔
تصویر: Martin Roemers
جنگی تربیت
1989ء سے 2009ء تک فوٹوگرافر مارٹن روئمرز نے دس مختلف ممالک میں سرد جنگ کی باقیات کو تلاش کیا۔ اس دوران انہوں نے 73 تصاویر بنائیں، جنہیں چار مارچ سے برلن کے تاریخی میوزیم میں شروع ہونے والی ایک نمائش میں رکھا گیا ہے۔ یہ تصویر سابق سوویت یونین میں ایک فوجی تربیت گاہ کی ہے۔
تصویر: Martin Roemers
نئی سرد جنگ؟
روسی وزیر اعظیم دیمتری میدویدیف نے گزشتہ ماہ میونخ میں سلامتی کے موضوع پر ہونے والی ایک کانفرنس میں ایک ’نئی سرد جنگ‘ کا ذکر کیا تھا۔ تاہم فوٹوگرافر روئمرز کا خیال ہے کہ اس طرح کی کسی دوسری جنگ کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ تصاویر کے ذریعے جنگ کے دوران تباہ ہونے والی جگہوں اور انسانی المیے کو واضح کرنا ان کا عزم ہے۔
تصویر: Martin Roemers
کئی دہائیوں تک تربیتی مرکز
سابقہ مشرقی جرمن ریاست کا الٹن گرابوو وہ مقام ہے، جہاں سابق سوویت دستوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ تاہم اس جگہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں اس سے قبل جرمن سلطنت سے لے کر نازی دور تک بھی فوجیوں کو عسکری تربیت دی جاتی رہی تھی۔ بظاہر ویران دکھائی دینے والے اس مقام پر آج بھی وفاقی جرمن فوجی مختلف طرح کی تربیتی مشقیں کرتے ہیں۔
تصویر: Martin Roemers
آخر میں روشنی
فوٹوگرافر مارٹن روئمرز کی یہ تصاویر تاریخی نہیں ہیں۔ انہوں نے اس دوران ہر اس جگہ کا دورہ کیا، جہاں سے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد فوجیوں کا انخلاء ہوا تھا۔ یہ برطانیہ میں موجود ایک زیر زمین بنکر سے نکلنے کے لیے بنائی گئی ایک سرنگ کی تصویر ہے۔ مارٹن روئمرز کی ان تصاویر کی نمائش رواں برس چودہ اگست تک جاری رہے گی۔
تصویر: Martin Roemers
6 تصاویر1 | 6
فرار اور جدا ہو جانے والے خاندان
ٹھںڈ، خاموشی اور گھنٹوں طویل انتظار، یہ تھا احساس جنگ کا میرے لیے۔ جی ڈی آر نے اپنے شہریوں کو مغرب کی جانب سفر کرنے سے روک دیا، چند ایک کے علاوہ۔ کچھ لوگوں کی مشرقی جرمنی چھوڑنے کی کوششیں جان لیوا ثابت ہوئیں۔ کم از کم 500 افراد سرحد اور دیوار برلن پار کرنے کی کوشش میں مارے گئے۔
سرد جنگ کے 22 ملین متاثرین
ویت نام، افریقہ اور افغانستان جیسے ممالک میں کئی پراکسی وارز ہوئیں جن کا بنیادی مقصد جگہ، وسائل اور نظریات پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا تھا۔ ان کئی جنگوں میں 22 ملین افراد ہلاک ہوئے۔ لیکن مجھے ان سب باتوں کا اندازہ بہت دیر میں ہوا جب میں اسکول میں تھی۔
معاشی بد حالی، طویل انتظار اور من مانی
ایک معیشت جو کمیونسٹ مںوبہ بندی سے چل رہی ہو، میں اشیا کی درآمد اور برآمد کے بہت سخت اصول ہوتے ہیں۔ میکی ماؤس کے میگزینز کو مغربی پروپگینڈا سمجھا جاتا تھا۔ اور بچوں کے کپڑے جوتے اور کھلونے منگوانے کی اجازت بھی نا تھی۔ جو اب محض ایک عجیب و غریب قصہ ہے وہ اس وقت کافی خطرناک حقیقت تھی۔ جی ڈی آر کے کسٹم اور غیر ملکی زر مبادلہ کے ضوابط کی خلاف ورزیوں پر بھاری جرمانے عائد کیے جاتے تھے۔ سنگین خلاف ورزیوں کے لیے گرفتاری اور مقدمے سے پہلے ریمانڈ کی دھمکی کے ساتھ۔ اور کوئی کبھی نہیں جانتا تھا کہ سنگین خلاف ورزی کیا ہے۔
اب مزید جنگ نہیں
دوسری جنگ عظیم جرمنی کی تقسیم اور اس کے بعد سرد جنگ کا باعث بنی۔ یہی وجہ ہے کہ سن 1985 میں اسٹنگ کا گانا روسی مجھے یاد آیا۔ حال ہی میں اسٹنگ نے یوکرین کی حمایت میں گانا دوبارہ ریکارڈ کیا۔جس کی ایک سطر یہ ہے، ''روسی اپنے بچوں سے بھی پیار کرتے ہیں۔‘‘ اور آج، جیسا کہ سن 1980 کی دہائی میں، میں امید کرتی ہوں کہ روسی مائیں اور باپ اپنے بچوں سے اتنی محبت کریں گے کہ وہ آخر کار اس ظالمانہ جنگ کے خلاف موقف اختیار کریں گیں جو بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے، اور جس کے ذریعے روسی صدر پوٹن نے یوکرین پر حملہ کیا ہے۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں نہ صرف لاتعداد بے گناہ یوکرینی مر رہے ہیں بلکہ روسی نوجوان بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔
ایک خوفناک دور کا اختتام
جب میں نے یہ خبر سنی کہ 9 نومبر 1989 کی اس رات کو جی ڈی آر بارڈر کھل گیا تو میں نے اپنی نانی اور اپنے والدین کو فون کیا۔ ہم فون پر رو پڑے۔ میں نے اور میرے بھائی نے بے ساختہ گاڑی سے برلن جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم مارین بورن بارڈر کراسنگ تک پہنچ گئے، لیکن وہ ابھی بھی برلن سے 180 کلومیٹر دور تھا، اور شہر جانے والے متبادل راستے پر ٹریفک رکی ہوئی تھی۔ چنانچہ جب ہمارے پاسپورٹ واپس کر دیے گئے، تو ہم نے مڑ کر ایک رکی ہوئی کار کو کھینچنے میں مدد کی، جس کا ڈرائیور سرحد پار کرنے کو بے تاب تھا۔
اپنے اردگرد اس افراتفری سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم نے شراب کے ساتھ ٹوسٹ کیا۔ سرحد اس بار ہمیں خطرناک نہیں لگی۔
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔