ہر پانچویں جرمن کی سالانہ آمدنی سولہ ہزار تین سو یورو سے کم
9 اکتوبر 2022
جرمنی میں ہر پانچواں فرد سالانہ بنیادوں پر اوسط فی کس آمدنی کی نچلی ترین سطح پر رہتے ہوئے اپنا مالی گزارہ کرتا ہے۔ تازہ ترین ڈیتا کے مطابق ایسے افراد کی اوسط سالانہ آمدنی سولہ ہزار تین سو یورو فی کس سے بھی کم ہوتی ہے۔
اشتہار
کسی بھی دوسرے ملک کی طرح جرمنی میں بھی، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا ہے، مختلف سماجی طبقات کی اوسط سالانہ آمدنی میں بہت وسیع خلیج پائی جاتی ہے۔
بہت سے شہری تو اتنے امیر ہیں کہ انہیں ہر سال سینکڑوں ملین سے لے کر اربوں یورو تک کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس لاکھوں باشندے، جن میں جرمن شہری اور جرمنی میں مستقل طور پر رہنے والے غیر ملکی بھی شامل ہیں، اتنے کم وسائل کے حامل ہوتے ہیں کہ انہیں اپنی گزر بسر کے لیے سرکاری سماجی امداد پر بھی انحصار کرنا پڑتا ہے۔
اس بارے میں وفاقی دفتر شماریات کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی کی اس وقت تقریباﹰ 84 ملین کی آبادی میں سے قریب 20 فیصد شہریوں یا ہر پانچویں فرد کی اوسط سالانہ آمدنی قومی سطح پر فی کس سالانہ آمدنی کی نچلی ترین سطح پر رہتی ہے۔
وفاقی دفتر شماریات کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جرمنی کی تقریباﹰ 20 فیصد آبادی کو فی کس بنیادوں پر سالانہ اوسطاﹰ 16 ہزار 300 یورو سے بھی کم مالی وسائل دستیاب ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس تقریباﹰ 40 فیصد آبادی یا ہر پانچ میں سے دو افراد کو سالانہ اوسطاﹰ 22 ہزار یورو فی کس کی آمدنی ہوتی ہے۔ تیسرا اور سب سے بڑا سماجی گروپ ملک کی مجموعی آبادی کا وہ باقی ماندہ 40 فیصد حصہ ہے، جس میں ہر فرد کو سالانہ اوسطاﹰ 28 ہزار 400 یورو سے زائد کے آمدن ہوتی ہے۔
اشتہار
شریک حیات کے بغیر بچوں کی پرورش کرنے والوں کی مالی مشکلات
جرمنی کی مجموعی آبادی میں سے جو تقریباﹰ 20 فیصد افراد اوسط سالانہ آمدنی کی نچلی ترین سطح پر رہتے ہوئے گزارہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، ان میں سے 40 فیصد ایسے ہوتے ہیں، جو اپنے یا اپنی شریک حیات کے بغیر ہی اپنے بچوں کی پرورش کر رہے ہوتے ہیں۔
اس سماجی گروپ کی زندگی اس لیے بہت مشکل ہوتی ہے کہ اول تو ایسے مردوں اور عورتوں کی ازدواجی زندگی ناکام ہو چکی ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ اپنے بچوں کی پرورش اکیلے ہی کرتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ انہیں سماجی ذمے داریوں کے بہت زیادہ بوجھ کا سامنا بھی ہوتا ہے، کیونکہ اولاد کی پرورش کا کام والدین مل کر کرنے کے بجائے ماں یا باپ میں سے صرف ایک ہی کر رہا ہوتا ہے۔
تیسرے یہ کہ ایسے شہریوں اور ان کی اولاد کے مالی حالات اس لیے بھی خراب ہوتے ہیں کہ انہیں سالانہ 16 ہزار 300 یورو سے بھی کم یا تقریباﹰ 1350 یورو فی کس ماہانہ میں گزارہ کرنا پڑتا ہے۔
اس تازہ ترین قومی ڈیٹا کی بنیاد سال 2021ء کے ملکی اعداد و شمار کو بنایا گیا۔
م م / ش ر (کے این اے، ای پی بی)
جرمن شہریوں کی غربت کی کہانیاں
بے گھر، کھانے پینے میں بچت اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو جرمنی میں ہر تیسرا شہری غربت سے متاثر ہے۔ ایسے افراد کی کہانیاں تصویروں کی زبانی۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غیر یقینی مستقبل
یہ تصویر جرمن وفاقی ریاست اور شہر بریمن کے غریب ترین سمجھے جانے والے علاقے کی ہے۔ بریمن میں ہر پانچویں شخص کو غربت کے خطرات لاحق ہیں۔ جرمنی میں غریب اسے تصور کیا جاتا ہے جس کی ماہانہ آمدنی درمیانے درجے کے جرمن شہریوں کی اوسط آمدنی سے ساٹھ فیصد سے کم ہو۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بھوک کے خلاف جنگ
بریمن میں تین ایسی غیر سرکاری تنظیمیں بھی سرگرم ہیں جنہوں نے غربت اور بھوک کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ یہ ادارے سپر مارکیٹوں اور بیکریوں سے بچا ہوا کھانا اور اشیائے ضرورت جمع کر کے ضرورت مند افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایسی ایک تنظیم ہر روز قریب سوا سو افراد کو کھانا مہیا کرتی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
نسلی تفریق سے بالاتر
جرمن شہر ایسن میں ایک نجی تنظیم نے غیر ملکی افراد کو مفت خوراک مہیا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر شدید تنقید سامنے آنے کے بعد انہیں فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ بریمن میں سرگرم تنظیموں کا تاہم کہنا ہے کہ وہ ہر رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے غریب افراد کی مدد کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بوڑھے بھی پیش پیش
اسی سالہ ویرنر ڈوزے رضاکارانہ طور پر غریبوں کو خوراک مہیا کرنے والی تنظیم بریمنر ٹافل کے لیے کام کرتے ہیں۔ کئی افراد ایک یورو فی گھنٹہ اجرت کے عوض اور بہت سے رضاکار طالب علم بھی ’غربت کے خلاف جنگ‘ کا حصہ ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
ہالے میں اجڑے گھر
مشرقی جرمنی میں ہالے شہر کی رونقیں قابل دید تھیں لیکن اب ہالے نوئے اسٹڈ کا علاقہ ویرانی کا منظر پیش کرتا ہے۔ ہالے میں بے روزگاری کی شرح بھی زیادہ ہے اور روزگار ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
محروم طبقے کی مدد
ہالے میں محروم ترین طبقے کی مدد کے لیے انہیں کم داموں پر اشیائے خورد و نوش اور کپڑے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان ’سوشل مارکیٹوں‘ میں محروم ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں اور معمر افراد کو ترجیحی بنیادوں پر یہ اشیا فراہم کی جاتی ہیں لیکن غریب ترین جرمن شہر ہالے میں ضرورت مندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’زیادہ تر خریدار غیر ملکی‘
یہ تصویر ایک ایسے اسٹور کی ہے جہاں گھر کی اشیا سستے داموں فراہم کی جاتی ہیں۔ اسٹور کے ملازم کا کہنا ہے کہ خریداروں کی اکثریت غیر ملکیوں اور مہاجرین کی ہوتی ہے۔ ان کے بقول غریب جرمن شہری شاید استعمال شدہ اشیا خریدنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غربت میں پروان چڑھتے بچے
جرمنی میں قریب ایک ملین بچے غربت کا شکار ہیں۔ ایسے بچے نہ تو سالگرہ کی تقریبات منا پاتے ہیں، نہ کھیلوں کے کلبوں کا رخ کر سکتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ہر ساتواں بچہ حکومت کی فراہم کردہ سماجی امداد کا محتاج ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’کوئی بچہ بھوکا نہ رہے‘
’شنٹے اوسٹ‘ نامی ایک تنظیم چھ سے پندرہ برس عمر کے پچاس بچوں کو اسکول کے بعد کھانا مہیا کرتی ہے۔ ادارے کی ڈائریکٹر بیٹینا شاپر کہتی ہیں کہ کئی بچے ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کے لیے بھی گرم کھانا دستیاب نہیں ہوتا۔ اس تنظیم کی خواہش ہے کہ کوئی بچہ گھر بھوکا نہ جائے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’ہم ایک خاندان ہیں‘
بیٹینا شاپر کا کہنا ہے کہ ضرورت مند بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جن میں مہاجر بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ان کی تنظیم بچوں کو کھانا مہیا کرنے کے علاوہ ہوم ورک اور روز مرہ کے کاموں میں بھی معاونت فراہم کرتی ہے۔ دانت صاف کرنے کا درست طریقہ بھی سکھایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بڑھتی تنہائی
ایک اندازے کے مطابق قریب چھ ہزار بے گھر افراد برلن کی سڑکوں پر سونے پر مجبور ہیں۔ جرمن دارالحکومت کے ساٹھ فیصد بے گھر افراد غیر ملکی ہیں اور ان کی اکثریت کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بے گھروں کے چکنا چور خواب
ایک حادثے میں یورگ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی اور وہ گزشتہ چھ برس سے بے گھر ہے۔ یورگ کا کہنا ہے کہ برلن میں بے گھر افراد کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد میں آپسی مقابلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ تعمیر کے فن میں مہارت رکھنے والے اڑتیس سالہ یوگ کی خواہش ہے کہ کسی دن وہ دوبارہ ڈرم بجانے کے قابل ہو پائے۔