’ہر پاکستانی انٹرنیٹ صارف برطانوی انٹیلیجنس کی دسترس میں‘
24 جون 2015اسلام آباد سے بدھ چوبیس جون کو موصول ہونے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پاکستانی آن لائن یوزرز کے ذاتی ڈیٹا کے برطانوی انٹیلیجنس حکام کی دسترس میں ہونے کا انکشاف ان خفیہ دستاویزات میں کیا گیا ہے، جو امریکی خفیہ ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے ایک سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی طرف سے 2008ء میں منظر عام پر لائی گئی تھیں۔
اے ایف پی کے مطابق ان حیران کن تفصیلات کے منظر پر آنے کے بعد پاکستان میں انسانی حقوق اور آن لائن حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اداروں کے ساتھ ساتھ ملکی پارلیمان کے کئی اپوزیشن رہنماؤں نے بھی وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملکی شہریوں کے ذاتی آن لائن ڈیٹا اور ان کی نجی زندگی کے معاملات سے متعلق تفصیلات کی حفاظت کے لیے بہتر اور مؤثر اقدامات کرے۔
رپورٹوں کے مطابق پاکستان کے تقریباﹰ سارے ہی آن لائن صارفین کے ڈیٹا تک برطانوی حکام کی رسائی کا انکشاف اسی ہفتے ایک آن لائن نیوز پلیٹ فارم ’دی انٹرسیپٹ‘ میں کیا گیا ہے اور یہ آن لائن رپورٹ اینڈریو فش مین اور گلَین گرین والڈ نامی صحافیوں نے لکھی ہے۔
اس رپورٹ میں جس دستاویز کا حوالہ دیا گیا ہے، اس کا عنوان ہے: ’’انتہائی خفیہ دستاویز، حصہ دوئم، صرف برطانوی آنکھوں کے لیے۔‘‘ رپورٹ کے مصنفین کے مطابق یہ دستاویز مبینہ طور پر برطانوی حکومت کے کمیونیکیشن ہیڈکوارٹرز یا GCHQ نامی انٹیلیجنس ایجنسی نے تیار کی تھی، جس میں یہ بحث بھی کی گئی ہے کہ کس طرح دیگر ذرائع کے علاوہ یہ ڈیٹا computer network exploitation یا CNE اور سافٹ ویئر کی بیرون ملک reverse engineering کی کوششوں کے بعد حاصل کیا گیا۔
اس دستاویز کے مطابق پاکستان میں CNE کے ذریعے ملکی انٹرنیٹ ایکسچینج میں ایسے امکانات کو یقینی بنایا گیا کہ اس کے ذریعے ’تقریباﹰ ہر پاکستانی انٹرنیٹ صارف اور اس کے ڈیٹا تک رسائی‘ ممکن ہو گئی۔ برطانوی حکام کی تیار کردہ اسی مبینہ دستاویز میں Cisco نامی کمپنی کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، جو ایک امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ہے اور جس کے تیار کردہ آن لائن نیٹ ورک انفراسٹرکچر دنیا بھر میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ’’Cisco کے آن لائن روٹرز کے خلاف جن امکانات کو یقنی بنایا گیا ہے، ان کے ذریعے برطانوی حکام نہ صرف ’مخصوص‘ بین الاقوامی انٹرنیٹ ٹریفک کو خاص راستے پر ڈال سکتے ہیں بلکہ اس طرح اس ڈیٹا کو GCHQ کے ’خاموش کولیکشن سینٹرز‘ کی طرف بھی بھیجا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں عام شہریوں کے ڈیجیٹل حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم ایک غیر سرکاری تنظیم ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد نے ابھی کل منگل کے روز ہی ایک بیان میں کہا تھا، ’’برطانوی انٹیلیجنس ایجنسی کی طرف سے یہ ہیکنگ اتنا بڑا آپریشن ہے، جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا اور یہ آپریشن پاکستان میں تمام انٹرنیٹ صارفین کی پرائیویسی سے متعلق ذاتی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزی ہے۔‘‘