پادریوں کی جانب سے بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے واقعات کے سامنے آنے سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں رہا۔ ایک تازہ تحقیق کے مطابق گزشتہ چھ دہائیوں میں ہزاروں بچے جرمن پادریوں کی ہوس کا نشانہ بن چکے ہیں۔
اشتہار
جرمن بشپ کانفرنس کے ایماء پر کرائے گئے ایک جائزے میں جنسی زیادتی کے تین ہزار 677 مبینہ واقعات کی چھان بین کی گئی۔ اس کے نتیجے سے معلوم ہوا کہ 1946ء سے 2014ء کے درمیان 1670 پاردی جنسی زیادتی کے واقعات میں ملوث رہے ہیں۔ ان چھ دہائیوں کے دوران زیادتی کا نشانہ بننے والے زیادہ تر تیرہ سال سے کم عمر لڑکے تھے۔
جرمن بشپ کانفرنس کے پادری اسٹیفن آکرمان نے اس تناظر میں کہا، ’’ہمیں سامنے آنے والے جنسی استحصال کے واقعات کی وسعت کا اندازہ ہے۔ ہم بہت مایوس اور شرمندہ ہیں۔‘‘ آکرمان نے مزید بتایا کہ اس جائزے کا مقصد متاثر ین کی خاطر کلیسا کے اس سیاہ پہلو پر روشنی ڈالنا ہی نہیں ہے بلکہ ، ’’ یہ ہمارے لیے بھی اہم ہے تاکہ ہم اپنی غلطیوں کو سمجھتے ہوئے آئندہ ایسے واقعات کو رونما ہونے سے روک سکیں۔‘‘
اس رپورٹ کے مطابق ان میں سے نصف سے زائد بچوں کو جب جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا تو ان کی عمریں تیرہ سال یا اس سے بھی کم تھیں۔ ان میں سے ہر چھٹے واقعے میں بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی جبکہ تین چوتھائی کیسز میں متاثرہ بچے اپنے مجرم کو کلیسا کے ذریعے جانتے تھے۔
ان واقعات کے بارے میں کلیسا میں جو دستاویزات تیار کی گئیں تھیں، انہیں یا تو ضائع کردیا گیا تھا یا پھر ان میں ردو بدل کیا گیا، جس کی وجہ سے جنسی استحصال کے ان واقعات کی تہہ تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا رہا۔
اس جائزے میں خبردار کیا گیا ہے کہ یہ نہ سمجھا جائے کہ پادریوں کی جانب سے کم عمروں کے ساتھ جنسی چھیڑ چھاڑ کے یہ واقعات صرف ماضی میں ہی رونما ہوئے تھے بلکہ 2014ء میں بھی بچوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، ’’ ملوث پادریوں کا اکثر خاموشی سے تبادلہ کر دیا جاتا تھا۔ اس دوران متاثرہ بچے کے اہل خانہ کو اس بارے میں بتایا بھی نہیں جاتا تھا۔ تاہم جن پادریوں نے کلیسا کے قانون کے تحت خود کو پیش کیا ان پر یا تو معمولی سی پابندیاں عائد کی گئیں اور یا انہیں معطل کر دیا گیا۔‘‘
اس جائزے کو مرتب کرنے کے عمل میں دوران گیسن، ہائڈلبیرگ اور منہائم کی جامعات کا بھی تعاون حاصل کیا گیا۔
بچپن سے محروم بچے
سیو دی چلڈرن نامی تنظیم نے یکم جون کو بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ اس کے مطابق دنیا بھر میں کم از کم 730 ملین بچے اپنے بچپن کے سنہری دور سے محروم رہ جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Sansar
در بدر کی ٹھوکریں
غیر سرکاری تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنگوں اور پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے بہت سے بچوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔ بچیوں کی کم عمری میں شادی اور حاملہ ہونے کے علاوہ خراب صحت بھی اس محرومی کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بچپن کہتے کسے ہیں؟
اس رپورٹ میں بچپن سے مراد وہ وقت ہے، جب بچے صرف کھیلتے کودتے ہیں اور انہیں مختلف چیزیں سکھانے کا عمل شروع کیا جاتا ہے، تاکہ بچوں کی شخصیت تعمیر ہو سکے۔
اس تنظیم کی سربراہ ہیلے تھورننگ شمٹ کے مطابق، ’’بچے غربت اور امتیازی سلوک کی چکی میں پس کر اپنا بچپن کھو رہے ہیں۔‘‘ ہر لڑکی اور ہر لڑکے کو بچپن میں محبت اور تحفظ کے احساس کے علاوہ مکمل دیکھ بھال کا حق بھی حاصل ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Nath
سب سے زیادہ متاثر بچے
End of Childhood یا ’بچپن کا خاتمہ‘ کے عنوان سے تیار کی جانے والی 172 ممالک کی اس فہرست میں مغربی اور وسطی افریقی ممالک سب سے نچلی سطح پر ہیں۔ ان میں بھی نائجر، انگولا اور مالی کے بچے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Sanogo
یورپی بچے خوش قسمت
ناروے، سلووینیا، فن لینڈ، ہالینڈ اور سویڈن کے بچے ہیں، جو اپنے بچپن کے سنہری دور سے سب سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس فہرست میں جرمنی دسویں مقام پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Pilick
خطرناک مشقت
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 168 ملین بچے ایسے ہیں، کام کرنا جن کی مجبوری ہے اور ان میں سے بھی 85 ملین کو انتہائی سخت اور خطرناک حالات میں روزی کمانا پڑتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ouoba
اکثریت ترقی پذیر ممالک میں
سیو دی چلڈرن کے مطابق بچپن سے محروم کر دیے جانے والے ان تقریباً 730 ملین بچوں کی زیادہ تر تعداد کا تعلق ترقی پذیر ممالک کے پسماندہ خاندانوں سے ہے۔ ان علاقوں میں بچوں کو بنیادی سہولیات کے شدید فقدان کا سامنا ہے۔