ہزاروں طالبان کی افغان فوجی اڈے پر چڑھائی، 36 فوجی ہلاک
5 اپریل 2019
افغانستان کے مغربی صوبے بادغیس میں واقع ایک فوجی چھاؤنی کو طالبان عسکریت پسندوں نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔ مقامی حکام نے کابل حکومت سے فوری مدد طلب کی ہے کیونکہ محصور فوجیوں کے پاس ہتھیاروں کا ذخیرہ کم ہوتا جا رہا ہے۔
اشتہار
افغان صوبے بادغیس کے ضلع بالا مرغاب میں واقع فوجی بیس پر قبضے کے لیے طالبان عسکریت پسندوں اور ملکی فوج کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔ ضلعی گورنر عبدالوارث شیرزاد نے بتایا ہے کہ اس لڑائی میں کم از کم چھتیس افغان فوجی ہلاک ہو چکے ہیں اور عسکریت پسندوں نے کئی چیک پوسٹوں پر قبضہ بھی کر لیا ہے۔
بالامرغاب کے ضلعی گورنر نے لڑائی میں تیس سے زائد عسکریت پسند کی ہلاکت کا بھی بتایا ہے۔ ضلعی حکام کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں فوجی اور پولیس اہلکار شامل ہیں۔ بادغیس کی ضلعی کونسل کے ایک رکن کے مطابق اس لڑائی میں کئی اہلکار زخمی ہیں اور بروقت زخمیوں کو علاج فراہم نہ کیا گیا تو ہلاکتوں میں اضافہ ممکن ہے۔
اس فوجی چھاؤنی میں چھ سو افغان فوجیوں کے محصور ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ اس مناسبت سے بادغیس کی صوبائی کونسل کے رکن محمد ناصر نزاری کا کہنا ہے کہ محصور فوجیوں کو اسلحے میں شدید کمی کا سامنا ہے۔ نزاری نے یہ بھی بتایا کہ فوجیوں کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی کم رہ گیا ہے۔
مقامی حکام نے بھی کابل حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ محصور فوجیوں کی بازیابی کے لیے جلد از جلد فوجی کمک روانہ کرے۔
ضلعی گورنر کو کابل حکومت کی جانب سے فوجی امداد بروقت نہ روانہ کرنے پر گہری تشویش لاحق ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد کی جانب سے بھی کسی قسم کی فوجی امداد دستیاب نہ ہونے پر گہری مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانب کابل میں وزارت دفاع کے ترجمان نے وضاحت جاری کی ہے کہ بادغیس کے لیے فوجی کمک روانہ کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تقریباً دو ہزار کے قریب طالبان جنگجوؤں نے بالا مرغاب پر بدھ تین اپریل کی رات کو دھاوا بولا تھا اور تب سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ طالبان کے ترجمان نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بالا مرغاب پر حملہ چار سمتوں سے کیا گیا تھا۔
ماضی کا جدید افغانستان
طالبان کے دور اقتدار میں افغانستان میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلتے واقت برقع پہننا لازمی تھا۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی تھا جب افغان خواتین کھلے عام مغربی لباس پہننا پسند کرتی تھیں جیسا کہ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خواتین ڈاکٹرز
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کابل کی سٹرکوں پر فیشن
اس تصویر میں کابل ریڈیو کی عمارت کے باہر دو خواتین کو مغربی لباس پہنے دیکھا جا سکتا ہے۔ بنیاد پرست طالبان کی قیادت کے دوران خواتین برقعے کے بغیر گھروں سے باہر نہیں دیکھی جا سکتی تھیں۔ یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مساوی حقوق سب کے لیے
ستر کی دہائی کے دوران کابل کی پولی ٹیکنک یونیورسٹی میں طالبات کو دیکھے جانا ایک عام سی بات تھی۔ اب لگ بھگ 40 برس بعد تنازعات کے شکار اس ملک میں خواتین کے لیے تعلیم کا حصول مشکل ہے۔ افغانستان کے سن 2003 کے آئین کے مطابق لڑکے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے برابر حقوق حاصل ہیں۔
تصویر: Getty Images/Hulton Archive/Zh. Angelov
کمپیوٹر کی تعلیم
اس تصویر میں ایک سوویت استاد کابل کے پولی ٹیکنک ادارے میں افغان طلبہ کو پڑھاتی نظر آرہی ہیں۔ سن 1979 سے 1989ء تک جب افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ تھا، کئی سویت اساتذہ افغانستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھاتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP
طلبا اور طالبات
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں کابل میں مرد اور خواتین طلبہ کو ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ سن 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد افغانستان میں دس سالہ طویل جنگ کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں سن 1989 میں سوویت یونین نے افغانستان سے انخلاء کر لیا۔ ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال رہی جس کے نتیجے میں سن 1996 میں طالبان کو اس ملک کی قیادت مل گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP
اسکول سب کے لیے
اس تصویر میں افغانستان میں سوویت تسلط کے دور میں افغان لڑکیوں کو ایک سیکنڈری اسکول میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبان دور حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP
وہ وقت نہ رہا
سن 1981 میں لی گئی اس تصویر میں ایک خاتون دوپٹہ اوڑھے بغیر اپنے بچوں کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں۔ طالبان کے دور کا اختتام تو ہو چکا ہے لیکن افغان معاشرے میں آج بھی خواتین اس پدارانہ معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔.