ہزاروں فلسطینی بچوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کے لیے اعزاز
30 جون 2018
اقوام متحدہ کا معتبر پاپولیشن ایوارڈ تین اسرائیلی ڈاکٹروں کو دیا گیا ہے۔ ان ڈاکٹروں کا تعلق بچوں میں امراضِ قلب کی غیرسرکاری تنظیم ’سیو اے چائلڈز ہارٹ‘ سے ہے۔
اشتہار
اسرائیل کی ایک طبی غیرسرکاری تنظیم ’سیو اے چائلڈز ہارٹ‘ نے علاقائی تنازعات سے عبارت سیاست کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ایسے سینکڑوں فلسطینی بچوں کے آپریشنز اور علاج کیے ہیں جو امراضِ قلب میں مبتلا تھے۔ اس تنظیم نے دیگر ستاون ملکوں میں بھی طبی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
اس تنظیم کے تین ڈاکٹروں کو اقوام متحدہ کے دفتر میں معتبر پاپولیشن ایوارڈ سے نواز گیا۔ ایوارڈ لینے والے ڈاکٹروں میں ماہر اطفال ڈاکٹر سیئون حوری، ہارٹ سرجن ڈاکٹر لیئور ساسون اور بچوں کی کارڈیالوجی کے ماہر ڈاکٹر اکیوا تامیر شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے یہ ایوارڈ اس لیے دیا گیا کہ اسرائیلی غیرسرکاری تنظیم اور اُس کی معالجین کی ٹیم نے کئی انسانی جانوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا ہے۔
ڈاکٹر سیئون حوری اس غیر سرکاری تنظیم کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اپنی تنظیم کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی سرگرمیاں بین الاقوامی ہیں اور یہ غیر سیاسی اور غیر مذہبی بنیاد پر جاری ہیں۔ اس مناسب سے اُن کی جنگ زدہ فلسطینی علاقے میں جاری طبی سرگرمیوں کو غیرمعمولی وقعت اور پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔
یہ تنظیم فلسطینی علاقے کے علاوہ کئی دوسرے نیم ترقی یافتہ ملکوں میں بھی سرگرم ہے۔ اِس اسرائیلی طبی غیر سرکاری تنظیم کا صدر دفتر تل ابیب کے جنوب میں واقع ساحلی شہر حُولون میں ہے۔ حُولون میں تنظیم کا اپنا ایڈیتھ وولفسن میڈیکل سینٹر ہے اور اس وقت بھی اس میں چوالیس بچے زیر علاج ہیں۔
یہ طبی مرکز بیمار بچوں کا مکمل علاج بغیر کسی فیس کے کرتا ہے۔ اس کی طبی خدمات کا سلسلہ سن 1990 سے شروع ہوا تھا، جب سب سے پہلے ایتھوپیا کے ایک بچے کا علاج کیا گیا تھا۔ یہ تنظیم ہر منگل کو غزہ اور دوسرے فلسطینی علاقوں کے بچوں کے طبی معائنے بھی کرتی ہے۔
ایک سو ماہر معالجین اس تنظیم میں شامل ہیں جو مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر طبی خدمات سرانجام دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سیو اے چائلڈز ہارٹ کو اسرائیلی حکومت کی جانب سے بھی ایک معقول امدادی رقم دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کئی مخیر حضرات بھی مالی امداد اور ادویات کی فراہمی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہارٹ سرجن ڈاکٹر ساسون کے مطابق دل کے مرض میں مبتلا ایک بچے کا علاج حقیقت میں امن کا بیج بونے کے مترادف ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں یہ تنظیم پانچ ہزار سے زائد بچوں کے اوپن ہارٹ آپریشن کر چکی ہے۔ ان میں غزہ اور ویسٹ بینک کے دو ہزار فلسطینی بچے بھی شامل ہیں۔ اسی طرح یہ طبی ادارہ شام اور عراق کے امراض قلب میں مبتلا بچوں کی سرجری بھی کر چکا ہے۔ یہ تنظیم افریقہ (تنزانیہ، ایتھوپیا، کینیا)، یورپ ( رومانیہ، مالدووا) جنوبی امریکا (ایکواڈور، ہنڈوراس) اور ایشیا بشمول تمام مشرق وسطیٰ میں سرگرم ہے۔
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔