پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے 40 ہزار سے زائد مزدوروں کی زندگیاں شدید خطرات سے دوچار ہیں۔
اشتہار
مائن ورکرز یا کان کنوں نے کام کے دوران درپیش خطرات کے خلاف صوبے بھر میں جمعرات 10 اکتوبر کو احتجاج کیا۔ احتجاج کے دوران ان کان کنوں نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی جس میں حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔
بلوچستان کے مختلف اضلاع میں موجود ڈھائی ہزار سے زائد کانوں سے ہر سال بیس لاکھ ٹن سے زائد کوئلہ نکالا جاتاہے ۔ یہ کوئلہ نجی استعمال کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف کارخانوں اور توانائی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا تا ہے۔
ان کانوں میں کام کرنے والے مزدور کہتے ہیں کہ حکومتی عدم توجہی کے باعث ان کی زندگیاں دن بدن کوئلے کی ان کانوں سے بھی تاریک ہوتی جا رہی ہیں۔
بلوچستان میں ہرسال کوئلہ کانوں میں حادثات کے باعث درجنوں مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے یہ مزدورسوشل سکیورٹی سے بھی محروم ہیں اورکانوں میں حادثات سے متاثرہ اکثر مزدوروں کو حکومتی اعلانات کے باوجود کوئی مالی مدد بھی فراہم نہیں کی جاتی۔
بلوچستان میں مائن ورکرز کی ایک نمائندہ تنظیم کے مقامی رہنماء سید ولی کہتے ہیں کہ حکومت با اثر کوئلہ مالکان کے مفادات کے خلاف جان بوجھ کر مزدوروں کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''مائننگ کا شعبہ بلوچستان میں اس وقت انتہائی عدم توجہی کا شکار ہے۔ مائن ورکرز کی زندگیوں کوجوخطرات لاحق ہیں ان سے نمٹنے کے لیے کسی بھی سطح پر اب تک کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔ یہاں مزدوروں کی زندگی کی حفاظت اور کام کے معیاری ماحول کی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔‘‘
سید ولی نے مزید کہا کہ بلوچستان کی کوئلہ کانوں میں اکثر حادثات میتھین گیس کے باعث پیش اتے ہیں: ''یہاں صوبے کے مختلف علاقوں میں جو کانیں واقع ہیں وہ بہت گہری ہیں۔ اس لیے میتھین گیس کی موجودگی میں جب وہاں برقی الات استعمال کیے جاتے ہیں تو بعض اوقات سپارک کی وجہ سے دھماکے ہوجاتے ہیں۔ کانوں میں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے باعث اکثر اوقات کام میں مصروف مزدور کان کے اندر ہی پھنس جاتے ہیں۔ رواں سال بھی گزشتہ چند ماہ کے دوران دو درجن سے زائد مائن ورکرز مائن حادثات کی وجہ سے دکی، سورینج اور دیگر علاقوں میں جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔‘‘
بلوچستان میں کوئلے کی کانیں اور ان کے مزدور
کان کنی کو 18 ویں صدی کے صنعتی انقلاب کی بنیاد سمجھا جاتا ہے تاہم بدلتے وقت اور اس پیشے سے منسلک خطرات کے سبب بین الاقوامی سطح پر اس جانب سے توجہ منتقل ہوئی ہے۔ پاکستان میں اب بھی کئی مقامات پر کوئلے کی کانیں موجود ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات سے دور
بلوچستان کے علاقے سورن رینج میں کوئلے کی کان میں مزدوری کرنے والے سینکڑوں مزدوروں میں سے ایک بخت زمین کا تعلق سوات سے ہے۔ وہ چھ افراد کے کنبے کی کفالت کرتا ہے اور انہی پہاڑوں میں ضروریات زندگی کی بنیادی سہولیات سے میلوں دور زندگی بسر کرتا ہے
تصویر: DW/S. Khan
کان کنی اور تعلیم ساتھ ساتھ
فضل کریم ایک نوجوان کان کن ہے، سخت حالات میں وہ دن کے اوقات میں اپنی تعلیم حاصل کر رہا ہے اور رات میں کان میں کام کرتا ہے، مائیکرو بائیالوجی کا یہ طالب علم یہاں کے کان کنوں کے لیے ایک درخشاں مثال ہے۔
تصویر: DW/S. Khan
تعلیمی سہولیات کی عدم فراہمی
کان کنوں کی اس آبادی میں ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ بھی رہ رہے ہیں۔ صالحہ اور صنم دو بہنیں ہیں اور یہاں اسکول یا مدرسہ نہ ہونے کے سبب خاصی اداس رہتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
غلیل سے چڑیا کا شکار
بلوچستان کے ان پہاڑی علاقوں میں رہنے والے کان کنوں کے بچے دل بہلانے کے لیے مختلف کھیل کھیل کر وقت گزارتے ہیں۔ یہ بچے غلیل سے چڑیا کا شکار کرنے میں مصروف ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
ایک عمر بیت گئی
67 سالہ عبد الخالق گزشتہ قریب چار عشروں سے یہاں مزدوری کر رہے ہیں۔ سانس کی تکلیف میں مبتلا عبدالخالق کا اب دنیا میں کوئی نہیں رہا اور ان کے شب و روز یہیں گزارتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
کان کنوں کی جانوں کو دوسرا خطرہ
ایک مزدور کان سے نکلنے والے فضلے کو پہاڑی ڈھلان سے نیچے پھینک رہا ہے۔ بلوچستان میں بدامنی کے سبب اب پہلے کے مقابلے میں بہت کم کان کن رہ گئے ہیں اور ان کی اکثریت اپنے آبائی علاقوں کی طرف چلی گئی ہے۔
تصویر: DW/S. Khan
زندگی اور موت کوئلے کی کانوں کے پاس
عشروں سے بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑی علاقوں میں کان کنی کرنے والے مزدور موت کے بعد بھی کمزور اقتصادی حالات کے سبب اپنے آبائی علاقوں میں نہیں لے جائے جاتے اور یہی دفنا دیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Khan
7 تصاویر1 | 7
پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے تعلق رکھنے والے پچاس سالہ محمد مبین گزشتہ دس سالوں سے کوئٹہ کے قریب سورینج کے علاقے میں واقع کوئلہ کان میں کام کرتے ہیں۔ محمد مبین کا کہنا ہے کہ کوئلہ کانوں میں ہر مزدور پانچ سے آٹھ ہزار فٹ کی گہرائی میں نیچے جا کر کام کرتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''مجھے روزی کی تلاش اس شعبے کی جانب لے آئی ہے۔ اگر مجبور نہ ہوتا تو شاید کبھی یہ کام نہ کرتا۔ یہاں زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ حفاظتی انتظامات تو دور یہاں کان کنی کے لیے تکنیکی سہولیات کا بھی فقدان ہے۔ ہم سب اللہ کے سہارے کام کرتے ہیں۔ حکومت سے تو امیدیں دم توڑ چکی ہیں، مائن مالکان بھی دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن ہماری حفاظت ان کی ترجیحات میں کبھی شامل نہیں رہی۔‘‘
کوئلے کی کانوں میں مزدور: ’دن قبر میں گزرتا ہے‘
04:43
محمد مبین کے بقول کوئلہ کانوں میں ٹھیکے داری کا نظام نافذ ہے جہاں ٹھیکہ دار اپنے منافع کے لیے بھی ناقص آلات استعمال کرتا ہے: '' کوئلہ کانوں کے اندر پہلے کیکر کی لکڑیوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔ ان لکڑیوں کی وجہ سے کان گرنے کے نتیجے میں مخصوص آواز سے مزدور آگاہ ہوجاتے اور انہیں واپس نکلنے کے لیے وقت مل جایا کرتا تھا۔ اب سفیدہ نامی لکڑیاں استعمال کی جاتی ہیں جو کہ نہ صرف بہت کمزور ہیں بلکہ حادثے کے وقت ان کی کوئی آواز بھی محسوس نہیں ہوتی۔‘‘
بلوچستان کی ان کوئلہ کانوں میں مزدوروں کی صرف جانیں خطرات سے دوچار نہیں بلکہ یہاں ان محنت کشوں کو ان کی محنت کی مناسب اجرت بھی نہیں ملتی۔
پینتس سالہ حکمت اللہ کا تعلق خیبر پختونخؤا کے ضلع سوات کے ایک نواحی علاقے سے ہے۔ حکمت اللہ کہتے ہیں کہ دن بھر کام کے باوجود بھی وہ اتنا نہیں کما سکتے کہ اپنے بچوں کی دو وقت کی روٹی کا بندوبست کر سکیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''کانوں کے اندر کام کرنے والے مزدورں کی اجرتوں کا پیمانہ نکالے گئے کوئلے کی حساب سے مقرر کیا جاتا ہے۔ ایک مزدور کی اوسط دیہاڑی چھ سو سے آٹھ سو روپے تک بنتی ہے۔ آپ خود اندازہ لگائیں اس مہنگائی میں ایک مزدور اپنی ضرورت کس طرح پورا کرتا ہوگا۔ گھرکے آٹھ افراد پر مشتمل کنبے کا واحد سہارا میں ہوں۔ بہت مشکل سے ان کی ضروریات پوری کرتا ہوں۔ مزدوری سے بنیادی اخراجات پورے نہیں ہوسکتے اس لیے اکثر اوقات ادھار لے کر اپنی ضروریات پوری کرنا پڑتی ہیں۔‘‘
حکمت اللہ کا کہنا تھا کہ مائن حادثات میں سینکڑوں جانیں ضائع ہو چکی ہیں تاہم ارباب اختیار مائن ورکرز کی جانوں کو درپیش خطرات دور کرنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا رہے۔
بلوچستان میں مائننگ کے شعبے کے ماہر عمر حیات کہتے ہیں کہ یہاں مائننگ سیکٹر اور اس سے متعلقہ قوانین میں بہت خامیاں ہیں جن پر نظر ثانی وقت کی اولین ضرورت ہے: ''جغرافیائی لحاظ سے اگر بات کی جائے تو یہاں مائننگ کا شعبہ ملک کے دیگر حصوں سے کافی مختلف ہے۔ یہاں کی کوئلہ کانیں بہت گہری ہیں اور ان کانوں میں موجود گیسز کی مقدار جانچنے کے لیے باقاعدہ ایک جامع میکنزم کی ضرورت ہے۔ جب تک ایک مؤثر سسٹم اس حوالےسے فعال نہیں بنایا جاتا ان کانوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ یا میتھیں نامی گیس کی مقدار مانیٹر نہیں کی جا سکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام کانوں میں ایک کنٹرول سسٹم نصب کیا جائے تاکہ گیس کی خطرناک حد تک مقدار جمع ہونے کی صورت میں خطرے کی گھنٹیاں بجا کر کسی ممکنہ دھماکے سے قبل ہی کان کنوں کو کان سے باہرنکالا جا سکے۔‘‘
چند سکوں کے عوض بکتی معصومیت
عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 168 ملین بچے کان کنی، کارخانوں اور زرعی صنعت میں انتہائی سخت اور نامساعد حالات میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
سالانہ یاد دہانی
اقوام متحدہ ہر سال بارہ جون کو چائلد لیبر کے خلاف عالمی دن مناتا ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں 168 ملین بچوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی طرف دھیان مبذول کرانا ہے۔ عالمی ادارہ محنت کے رکن ممالک نے 1999ء میں ایک کنوینشن منظور کیا تھا، جس میں چائلڈ لیبر کی انتہائی بری اقسام کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ اس کنوینشن کے تحت اٹھارہ سال سے کم عمر کا ہر فرد بچہ تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: imago/Michael Westermann
بھارت میں تیار کیے گئے تولیہ
بھارتی ریاست تامل ناڈو کی اس فیکٹری میں بچے تولیے تیار کرتے ہیں۔ آئی ایل او کے تخمینوں کے مطابق دنیا کی سب سے بڑے اس جمہوری ملک میں 78 ملین بچوں سے ناجائز مزدوری کا کام لیا جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں پانچ سے سترہ برس کی عمر کے بچوں کی دس فیصد تعداد باقاعدہ بنیادوں پر چائلد لیبر کرتی ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
ایک دن کی مزدوری کےعوض صرف 80 سینٹ
لکھنے پڑھنے اور اسکول جانے کے بجائے یہ بچے اینٹیں بناتے ہیں۔ شدید غربت کی وجہ سے بہت سے بچے چائلڈ لیبر پر مجبور کیے جاتے ہیں۔ بھارت میں بھی بچوں کی ایک بڑی تعداد اپنے کبنے کی کفالت کے لیے اپنا پچپن فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ بچے روزانہ کم ازکم دس گھنٹے کام کرتے ہیں اور انہیں یومیہ تقریباﹰ صرف 80 سینٹ مزدروی ملتی ہے۔
تصویر: imago/Eastnews
سستی مزدروی
بھارتی حکومت کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق جنوبی ایشیا کے اس اہم ملک میں 12.6 ملین بچے چائلڈ لیبر کرتے ہیں۔ یہ بچے سڑکوں میں ٹھیلے لگانے کے علاوہ درزی، باورچی خانوں، ریستورانوں میں صفائی ستھرائی اور وزن اٹھانے کے علاوہ بھٹیوں میں بھی کام کرتے ہیں۔ بالغوں کے مقابلے میں ان بچوں کو اجرت بھی کم دی جاتی ہے یعنی اگر ایک کام کے ایک بالغ کو ایک روپے ملتے ہیں تو اسی کام کے ایک بچے کو 33 پیسے دیے جاتے ہیں۔
تصویر: imago/imagebroker
غیر انسانی حالات
عالمی ادارہ محنت کی 2013ء کی سالانہ رپورٹ کے مطابق چائلد لیبر کرنے والوں میں سے پچاس فیصد سے زائد کو انتہائی برے حالات کا سامنا ہوتا ہے۔ انہیں رات گئے تک لمبے اوقات تک کام کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے بچے بغیر کسی کانٹریکٹ اور ملازمین کو ملنے والے فوائد کے بغیر ہی مزدوری کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
بنگلہ دیش کی مصنوعات
بنگلہ دیش میں بھی چائلد لیبر کی شرح انتہائی بلند ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کے مطابق جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں تقریباﹰ پانچ ملین بچے ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ ہے۔ انتہائی برے حالات میں تیار کیے جانے والے یہ کپڑے ترقی یافتہ ممالک میں فروخت کیے جاتے ہیں۔
تصویر: imago/Michael Westermann
ایک بڑے شہر میں تنہا
کمبوڈیا میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ وہاں زیادہ تر بچے اپنے والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں جبکہ ہزاروں بچے سڑکوں پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مثال کے طور پر دارالحکومت پنوم پن میں اس بچی کو اپنی کفالت خود ہی کرنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
فہرست طویل ہے
اگرچہ 2000ء کے بعد عالمی سطح پر مشقت کرنے والوں بچوں کی تعداد کم ہوئی ہے تاہم کئی ایشیائی ممالک بالخصوص بنگلہ دیش، افغانستان، نیپال، کمبوڈیا اور میانمار میں ان معصوم بچوں کی صورتحال تاحال خستہ ہی ہے۔