ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی جیلوں میں ہزاروں پاکستانی قید ہیں، جن میں سے درجنوں کو سزائے موت دی جا چکی ہے، جب کہ ان افراد کے قانونی دفاع کے حق تک کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
اشتہار
انسانی حقوق کی تنظیموں ہیومن رائٹس واچ اور سٹڈی بائے جسٹس پروجیکٹ کی بدھ کے روز جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سعودی حکومت دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں سالانہ بنیادوں پر سب سے زیادہ پاکستانی شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سزائے موت پانے والے قریب تمام پاکستانی ’ہیروئن کی اسمگلنگ‘ کے الزام میں موت کے گھاٹ اتارے جاتے ہیں۔
’کاٹ اِن ا ویب‘ یا ’جال میں پھنسے‘ نامی اس رپورٹ کے مطابق سن 2014 تا 2017 سعودی حکومت نے چھیاسٹھ پاکستانیوں کے سر قلم کئے۔ ہیومن رائٹس واچ کے پاکستان میں ریسرچر سروپ اعجاز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں بتایا، ’’مسئلہ صرف موت کی سزا دینا ہی نہیں بلکہ یہ ہے کہ سزائے موت بغیر شفاف مقدمہ چلائے دی جاتی ہے اور ان ملزمان کو باضابطہ قانونی عمل سے نہیں گزارا جاتا۔‘‘
عبدالقادر ملا کی پھانسی پر بنگلہ دیش میں ہنگامے
بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر مُلا کو جمعرات کی شب دس بج کر ایک منٹ پر پھانسی دی گئی۔ وہ پہلے رہنما ہیں جنہیں 1971ء میں پاکستان سے علیحدگی کے لیے آزادی کی تحریک کے دوران کردار پر تختہ دار پر لٹکایا گیا ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
ملک بھر میں پُر تشدد مظاہرے
عبدالقادر مُلا کو پھانسی دیے جانے کے بعد بنگلہ دیش میں تشدد اور سیاسی افراتفری میں مزید شدت پیدا ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ مُلا کی پھانسی کے ردعمل میں ملک میں پر تشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
پاکستان نواز ملیشیا کا سربراہ ہونے کا الزام
بنگلہ دیش میں قائم کیے جانے والے ایک خصوصی ٹریبونل نے رواں برس فروری میں جماعت اسلامی کے رہنما عبدالقادر مُلا کو پاکستان سے علیحدگی کی تحریک کے دوران ایک پاکستان نواز ملیشیا کا سربراہ ہونے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اس ملیشیا پر الزام تھا کہ اس نے بنگلہ دیش کے بعض نامور پروفیسروں، ڈاکٹروں، مصنفین اور صحافیوں کو قتل کیا تھا۔ انہیں عصمت دری، قتل اور قتل عام کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA
بے شمار گھر اور دوکانیں نذرِ آتش
مظاہرین نے کئی مقامات پر حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کی املاک کو نذر آتش کیا ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مظاہرین نے بنگلہ دیش کے مختلف حصوں میں حکومت کے سپورٹرز اور ہندو اقلیت کے گھروں اور دکانوں کو جلایا ہے۔
تصویر: DW/M. Mamun
مشتعل مظاہرین کے ہاتھوں ہلاکتیں
تشدد کے اس تازہ سلسلے میں جمعے کے دن چار افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی۔ مشتعل مظاہرین نے حکمران عوامی لیگ کے دو کارکنوں کو جنوب مغربی علاقے ستخیرہ میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔ جنوبی ضلع نواکھلی میں جماعت اسلامی کے حامیوں کے ساتھ پولیس کی جھڑپ کے دوران ایک شخص ہلاک ہوا جبکہ مشتعل مظاہرین نے ایک ڈرائیور کو ہلاک کر دیا۔
تصویر: REUTERS
پھانسی کے حامی بنگلہ دیشی شہری
جہاں ایک طبقے کی جانب سے عبدالقادر ملا کی پھانسی پر شدید رد عمل دیکھنے میں آ رہا ہے، وہاں معاشرے کے کئی طبقات میں اس سزا پر اطمینان کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔ جمعرات بارہ دسمبر کی اس تصویر میں نظر آنے والے بنگلہ دیشی شہری سپریم کورٹ کی طرف سے ملا کی اپیل مسترد ہونے کے بعد نکالے جانے والے ایک جلوس میں اپنی خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
تصویر: Reuters
پھانسی جمعرات کی شب دی گئی
عبدالقادر مُلا کو منگل کے روز پھانسی دی جانا تھی، تاہم آخری لمحات میں سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کیے جانے کے بعد اس سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔ عبدالقادر ملا کی جانب سے اپنی سزا پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ سے اپیل کی گئی تھی، جو مسترد ہو گئی۔ جمعرات کی شب پولیس کے سخت پہرے میں تین ایمبولینس گاڑیاں سڑکوں پر نکلیں، جن میں سے ایک میں غالباً عبدالقادر ملا کی میت تھی۔
تصویر: Reuters
پھانسی سے پہلے آخری ملاقات
عبدالقادر ملا کے قریبی عزیزوں نے جمعرات کے روز دن میں ڈھاکہ جیل میں اُن کے ساتھ آخری ملاقات کی۔ اُسی روز رات کو ملا کی سزائے موت پر عملدرآمد کر دیا گیا۔ بنگلہ دیش کی اپوزیشن پارٹی جماعت اسلامی نے عبدالقادر مُلا کی پھانسی کو ایک سیاسی قتل قرار دیا ہے۔ جماعت کی طرف سے اتوار کے روز عام ہڑتال کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters
مُلا سمیت پانچ رہنماؤں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے
آزادی کے لیے لڑنے والوں کی بہبود کے لیے قائم ایک تنظیم سے وابستہ افراد اس سال جولائی میں جماعت اسلامی کے ایک رہنما علی احسن محمد مجاہد کو پھانسی کی سزا سنائے جانے پر نعرے لگا رہے ہیں۔ مُلا سمیت اب تک پانچ اپوزیشن اور مذہبی رہنماؤں کو متنازعہ انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کی طرف سے سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ جنوری سے اب تک اس حوالے سے پھوٹنے والے فسادات کے نتیجے میں 230 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters
8 تصاویر1 | 8
اعجاز کے مطابق، سعودی عرب میں پاکستانی تارکین وطن ’غیرمعمولی حد تک بے اختیار اور امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔‘‘ اعجاز نے بتایا کہ سعودی عرب میں فوجداری نظام انصاف ’امتیازی رویوں‘ سے عبارت ہے۔ واضح رہے کہ سعودی عرب میں 1.6 ملین پاکستانی نژاد افراد مقیم ہیں، جو اس ملک میں دوسری سب سے بڑی غیرملکی آبادی ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ان پاکستانی میں بڑی تعداد کم اجرت والی ملازمتوں اور نہایت محدود حقوق کی حامل ہیں۔
بدھ کے روز اسلام آباد میں جاری کردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قریب 2795 پاکستانی سعودی جیلوں میں بند ہیں۔ سعودی میڈیا رپورٹوں میں ابھی منگل چھ مارچ کو بتایا گیا تھا کہ ایک پاکستانی شہری کو مکہ شہر میں منشیات کی اسمگلنگ کے جرم میں موت کی گھاٹ اتارا گیا۔ گزشتہ ماہ چار دیگر پاکستانیوں کو ایک خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے اور اس کی بیٹی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے الزامات کے تحت سزائے موت سنائی گئی تھی۔