ہسپانوی امدادی کشتی تین سو مہاجرین کے ہمراہ اسپین پہنچے گی
28 دسمبر 2018
ایک ہسپانوی امدادی کشتی قریب تین سو مہاجرین کے ہمراہ آج اسپین کی ایک بندرگاہ پہنچ رہی ہے۔ ان تارکین وطن کو ایک ہفتہ قبل لیبیا کی سمندری حدود کے قریب ڈوبنے سے بچایا گیا تھا۔
اشتہار
اطلاعات کے مطابق ’اوپن آرمز‘ نامی یہ امدادی کشتی سان روقے کے علاقے میں واقع ’سری ناویس‘ بندرگاہ پر آج جمعے کی صبح لنگر انداز ہو گی۔ یہ بندرگاہ ہسپانوی شہر’ الہیسیرس‘ کے قریب ہے۔
'پرو ایکٹیوا اوپن آرمز’ امدادی فلاحی تنظیم جو تارکین وطن کو لانے والی کشتی کی منتظم ہے، نے جمعرات کے روز ایک ٹویٹ کے ذریعے اس حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔
کشتی پر موجود تین سو دس پناہ کے متلاشی افراد کو خوراک، طبی سہولیات اور لباس کی فراہمی کی خدمات فلاحی تنظیم ریڈ کراس کے کارکنان انجام دیں گے۔ کشتی پر موجود تارکین وطن میں صومالیہ، مالی اور نائجیریا کے باشندے شامل ہیں۔
ہسپانوی پولیس ان تارکین وطن کو شیلٹرز میں لے جانے سے قبل ان کی شناختی دستاویزات کی جانچ پڑتال کرے گی۔
پروایکٹیوا اوپن آرمز نامی ہسپانوی امدادی تنظیم جنوبی یورپی ممالک اور لیبیا کے مابین سمندر میں یورپ کا قصد کرنے والے افریقی مہاجرین کو امداد فراہم کرتی ہے۔ اوپن آرمز کی امدادی کشتی نے اکیس دسمبر کو حاملہ خواتین اور بچوں سمیت تین سو کے قریب تارکین وطن کو بچایا تھا جو تین مختلف کشتیوں پر سوار تھے۔
ہسپانوی وزیر اعظم پیدرو سانچیز کی سوشلسٹ حکومت نے گزشتہ ہفتے اٹلی اور مالٹا کے انکار کے بعد اس کشتی کو اسپین کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کی اجازت دی تھی۔
میڈرڈ حکومت کا کہنا ہے کہ پرو ایکٹیوا اوپن آرمز نے فرانس اور تیونس سے مہاجرین سے بھری امدادی کشتی کو لنگر انداز ہونے کی اجازت طلب کی تھی تاہم مذکورہ دونوں ممالک نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
خیال رہے کہ رواں برس جون میں وزیر اعظم پیدرو سانچیز کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد سے اسپین میں مہاجرت ایک اہم سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔ سانچیز نے وزیراعظم بننے کے فوراﹰ ہی بعد ایک این جی او کے بحری جہاز پر موجود چھ سو تارکین وطن کو اس وقت اسپین میں داخلے کی اجازت دی تھی جب مالٹا اور اٹلی کی حکومتوں نے ان مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ص ح / ع ت/ نیوز ایجنسی
دریائے ایورو، مہاجرین کے لیے موت کی گزرگاہ
ترکی اور یونان کے درمیان دریائے ایورو پار کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے ہزاروں مہاجرین اس دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی ماریانہ کراکولاکی نے الیگزندرو پولی میں مہاجرین کے ایک مردہ خانے کا دورہ کیا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
خطرناک گزرگاہ
دریائے ایورو ترکی اور یونان کے درمیان وہ خطرناک گزرگاہ ہے جسے برسوں سے ہزارہا تارکین وطن نے یورپ پہنچنے کی خواہش میں عبور کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیں۔ اس حوالے سے یہ بدنام ترین گزرگاہ بھی ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مردہ خانہ
رواں برس اب تک ترک یونان سرحد پر اس دریا سے انتیس افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ مرنے والے مہاجرین کی بڑھتی تعداد کے باعث فلاحی تنظیم ریڈ کراس نے ایک سرد خانہ عطیے میں دیا ہے۔ اس مردہ خانے میں فی الحال پندرہ لاشیں موجود ہیں۔ دریا سے ملنے والی آخری لاش ایک پندرہ سالہ لڑکے کی تھی۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مرنے والوں کی تلاش
دریائے ایورو کے علاقے میں گشت کرنے والی انتظامیہ کی ٹیمیں یا پھر شکاری اور مچھیرے ان لاشوں کو دریافت کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی لاش ملتی ہے، سب سے پہلے پولیس آ کر تفتیش کرتی ہے اور تصاویر بناتی ہے۔ پھر اس لاش کو مردہ خانے لے جایا جاتا ہے جہاں طبی افسر پاؤلوس پاؤلیدیس اس سے ملنے والی باقیات اور ڈی این اے کی جانچ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت کا سبب
پاؤلوس پاؤلیدیس کا کہنا ہے کہ مہاجرین بنیادی طور پر ڈوب کر ہلاک ہوتے ہیں۔ پاؤلیدیس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ستر فیصد ہلاکتوں کا سبب پانی میں رہنے کے سبب جسمانی درجہ حرارت کا معمول سے نیچے ہو جانا تھا۔ پاؤلیدیس کے مطابق حال ہی میں ٹرینوں اور بسوں کے نیچے کچلے جانے سے بھی اموات واقع ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ذاتی اشیا
پاؤلوس پاؤلیدیس مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی ذاتی نوعیت کی اشیا کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ لاش کی شناخت میں مدد مل سکے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مشکل مگر لازمی فرض منصبی
مردہ مہاجرین سے ملنے والی نجی استعمال کی چیزوں کو پیک کرنا ایک بہت تکلیف دہ کام ہے۔ پاؤلوس کہتے ہیں کہ دریا سے ملنے والی ذاتی اشیا زیادہ تر ایسی ہوتی ہیں جنہیں پانی خراب نہیں کر سکتا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
گمشدہ انگوٹھیاں
مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی زیادہ تر اشیاء دھات کی ہوتی ہیں جیسے انگوٹھیاں۔ گلے کے ہار اور بریسلٹ وغیرہ۔ کپڑے اور دستاویزات مثلاﹰ پاسپورٹ وغیرہ پانی میں تلف ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت اور مذہب
پاؤلوس کے بقول ایسی اشیا بھی دریائے ایورو سے ملتی ہیں جو مرنے والے کے مذہب کے حوالے سے آگاہی دیتی ہیں۔ ایسی چیزوں کو حفاظت سے رکھ لیا جاتا ہے اور رجوع کرنے کی صورت میں اُس کے خاندان کو لوٹا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ابدی جائے آرام
اگر کسی مرنے والے مہاجر کی شناخت ہو جائے تو اس کی لاش اس کے لواحقین کو لوٹا دی جاتی ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو یونانی حکام ان لاشوں کی آخری رسوم اُن کے مذہب کے مطابق ادا کرانے کا انتظام کرتے ہیں۔