’ہسپانوی سرحدی پولیس مہاجرین کو زبردستی واپس دھکیل رہی ہے‘
عاطف توقیر
6 مارچ 2018
حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے الزام عائد کیا ہے کہ ہسپانوی سرحدی محافظ اور پولیس ملک میں داخلے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کو زبردستی پیچھے دھکیل کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
اشتہار
حالیہ کچھ عرصے میں اسپین پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جن میں زیادہ تر مہاجرین شمالی افریقی سرزمین پر واقع ہسپانوی علاقوں سیوتا اور میلیلا پہنچ رہے ہیں۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کا الزام ہے کہ اسپین کے حکام ان تارکین وطن کو روکنے اور پیچھے دھکیلنے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہے ہیں، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے زمرے میں آتا ہے۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔
فروری کے آغاز میں ہسپانوی علاقے میلیلا کے قریب سمندری علاقے میں ایک خوف ناک واقعہ پیش آیا تھا، جب اسپین پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکین وطن کی ایک کشتی سمندر میں غرق ہو گئی تھی۔ اس واقعے کے بعد 20 تارکین وطن کی لاشیں سمندر سے نکالی گئی تھیں۔
مہاجرت کے موضوع پر اطلاعات فراہم کرنے والی ویب سائٹ انفومائیگرنٹس کے مطابق اٹلی اور یونان تو تارکین وطن کی بڑی تعداد کی آمد سے متاثر ہیں ہی، مگر گزشتہ برس قریب بائیس ہزار سے زائد تارکین وطن اور مہاجرین نے ہسپانوی ساحلوں کا رخ بھی کیا۔ ہسپانوی کمیشن برائے مہاجرین (CEAR) کے اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد سن 2016 کے مقابلے میں تین گنا سے بھی زیادہ تھی۔ اس ہسپانوی ادارے کے مطابق زیادہ تر تارکین وطن شمالی افریقہ میں واقع ہسپانوی علاقے سیوتا اور میلیلا کا رخ کرتے ہیں، اس کے علاوہ یہ تارکین وطن مراکش کے ذریعے بحیرہ روم میں واقع ہسپانوی جزائر تک پہنچنے کی تگ و دو میں بھی مصروف نظر آتے ہیں۔
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔
تصویر: Privat
11 تصاویر1 | 11
یہ بات اہم ہے کہ سن 2015 میں تارکین وطن کی ایک بہت بڑی تعداد نے ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے ذریعے یونان کا رخ کیا تھا، تاہم یورپی یونین اور انقرہ حکومت کے درمیان طے پانے والی ایک ڈیل کے بعد اس راستے سے یورپ پہنچنے والے افراد کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔
لیکن دوسری جانب شمالی افریقہ سے یورپی یونین کی رکن ریاستوں خصوصا اٹلی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ حالیہ کچھ عرصے میں اٹلی کی جانب سے تارکین وطن کو لیبیا سے اطالوی جزائر تک پہنچنے سے روکنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بعد اب اسپین کے ذریعے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔