ہفتے میں چار دن کام، تین دن آرام: کتنا فائدہ مند ہے؟
19 فروری 2022
بیلجیم میں ملازمین کو ہفتے میں چار دن کام کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ کئی دیگر ممالک کے ادارے بھی اس راہ پر چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہفتے میں صرف چار دن کام کرنے کا تجربہ کیوں مقبول ہو رہا ہے اور اس کے فوائد کیا ہیں؟
اشتہار
پاکستان سمیت دنیا کے زیادہ تر ممالک میں سرکاری و نجی اداروں میں ہفتے میں پانچ دن کام کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر اتنی ہی تنخواہ میں پانچ کی بجائے چار دن کام کیا جائے اور لوگ باقی تین دن اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ وقت گزاریں تو کیا ان کی کارکردگی بہتر ہو گی یا خراب؟
چار دن کام کرنے کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ طریقہ اختیار کرنے سے ملازمین کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے اور اداروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ کئی یورپی ممالک میں اس طریقہ کار کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن عملی طور پر یہ راہ اختیار کرنے میں بیلجیم سرفہرست ہے۔
بیلجیم میں اب سے ملازمین کو اختیار ہو گا کہ وہ خود طے کریں کہ آیا وہ ہفتے میں چار روز کام کرنا چاہتے ہیں پانچ روز۔ چار دن کام کرنے کی صورت میں انہیں یومیہ زیادہ وقت تک کام کرنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ وہ خود ہی یہ فیصلہ بھی کر سکیں گے کہ انہیں کون سے چار دن کام کرنا ہے۔
بیلجیم کے وزیر اعظم الیکزانڈر دے کرو نے امید ظاہر کی ہے کہ اس ماڈل کو اختیار کرنے سے شہری اپنی دفتری اور نجی زندگی میں توازن قائم کر سکیں گے۔
لیکن ایسے ماڈل کا فائدہ کیا ہے اور نقصانات کیا ہیں؟ ڈی ڈبلیو نے جائزہ لیا کہ اب تک یہ تجربہ کن ممالک میں کیا جا چکا ہے اور اس کے نتائج کیسے رہے۔
آئس لینڈ: تنخواہ پوری لیکن کام کا دورانیہ کم
آئس لینڈ میں بھی بیلجیم کا طرح اس ماڈل کا تجربہ سن 2015 اور سن 2019 کے درمیان کیا گیا۔ تاہم اس ملک نے ہفتے میں 40 گھنٹے کام کی بجائے دورانیہ بھی کم کے ہفتے میں 35 یا 36 گھنٹوں تک محدود کر دیا تھا، تاہم تنخواہ اتنی ہی رکھی گئی تھی۔
تجرباتی بنیادوں پر ڈھائی ہزار ملازمین نے اس ماڈل میں شمولیت اختیار کی۔ تجربے کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ شرکا کی صحت میں نمایاں بہتری رونما ہوئی اور ان کی کارکردگی بھی بہتر ہوئی۔
کامیاب تجربے کے بعد اس ماڈل کو ملک بھر میں متعارف کرا دیا گیا اور اب آئس لینڈ کے 86 فیصد ملازمین ہفتے میں چار دن کام کرتے ہیں اور وہ بھی 40 نہیں بلکہ 36 گھنٹے۔
اشتہار
سکاٹ لینڈ اور ویلز: ایک مہنگا تجربہ
سکاٹ لینڈ میں بھی ان دنوں ہفتے میں چار دن کام کرنے کا تجربہ جاری ہے۔ اس تجربے کے لیے حکومت کمپنیوں کو قریب 14 ملین ڈالر کی مالی معاونت بھی فراہم کر رہی ہے۔
ویلز کی حکومت بھی یہی راہ اختیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ابتدا میں 'چار دن کا ہفتہ‘ صرف سرکاری ملازموں کے لیے متعارف کرایا جائے گا۔
فن لینڈ سے 'فیک نیوز‘
عالمی میڈیا میں فن لینڈ کے بارے میں بھی کچھ عرصہ پہلے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ وہاں بھی ہفتے میں چار روز کام کا ماڈل متعارف کرایا جا رہا ہے۔
تاہم ایسی خبریں اس وقت 'فیک نیوز‘ ثابت ہوئی جب فن لینڈ کی حکومت نے بتایا کہ وہ فی الوقت یہ ماڈل اختیار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔
اسپین میں ماڈل کا تجربہ ہی سست روی کا شکار
اسپین میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت کی درخواست پر اس ماڈل کا تجربہ کیا جانا ہے۔ تجرباتی بنیادوں پر قریب 200 چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں کے چھ ہزار ملازمین کو اس کام کے لیے منتخب کیا جانا تھا۔
اس ماڈل کا تجربہ گزشتہ برس شروع کیا جانا تھا تاہم ابھی تک اس کا آغاز نہین ہو پایا۔
جرمنی اور دیگر ممالک
جرمنی میں اب تک چھوٹی اسٹارٹ اپ کمپنیوں نے ہی چار دن کام کرنے کا تجربہ کیا ہے۔ تاہم جاپان میں کئی بڑی کمپنیاں بھی چار دن کام کروا کر اس ماڈل کی افادیت کا جائزہ لے رہی ہیں۔
مائیکرو سافٹ نے بھی تجرباتی بنیادوں پر مہینے کے آخری ہفتے صرف تین دن کام کرنے کا ماڈل متعارف کرایا ہے۔
ملٹی نیشنل کمپنی یونی لیور نے نیوزی لینڈ میں 'چار روزہ ہفتے‘ کا تجربہ شروع کر رکھا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اور یہ تجربہ کارآمد ثابت ہوا تو کمپنی اسے دوسرے ممالک میں بھی متعارف کرا دے گی۔
کیا اس ماڈل کا تجربہ پاکستان جیسے ممالک میں بھی کیا جانا چاہیے؟ آپ کیا کہتے ہیں؟
اسٹیفنی ہوپر (ش ح/ ک م)
جرمنوں کو بہتر طور پر جانیے، وہ چیزیں جو ان کے لیے اہم ہیں!
جرمنی کا دفتر برائے شماریات گزشتہ چار برسوں سے ایک سروے کروا رہا ہے۔ اس میں جرمن شہریوں سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں اور وہ اپنی زندگی میں کیا کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ جرمن باشندوں کے جوابات کچھ یوں تھے۔
تصویر: picture-alliance/Chromorange/Bilderbox
اچھے دوست اور بہترین دوستی، 85 فیصد
گزشتہ چار برسوں کے دوران کرائے گئے اس سروے میں 14 برس سے زائد عمر کے شہریوں کو شامل کیا گیا تھا۔ پچاسی فیصد سے زائد جرمنوں کا کہنا تھا کہ ان کے لیے کسی نا کسی جگری دوست کا ہونا یا بہترین دوستی قائم رکھنا بہت ہی ضروری ہے۔
تصویر: Imago/imagebroker/theissen
خاندان، 80 فیصد
اس سروے میں شامل اسی فیصد جرمنوں کا کہنا تھا کہ ان کے لیے ان کا خاندان، خاندان سے جڑے رہنا یا خاندان کے لیے کام کرنا زیادہ اہم ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
شریک حیات کے ساتھ خوشگوار زندگی، 75 فیصد
سن دو ہزار سترہ میں پچھہتر فیصد جرمنوں کے لیے اپنے پارٹنر کے ساتھ خوشگوار زندگی گزارنا اہم تھا۔ تاہم سن دو ہزار بیس میں اس شرح میں تھوڑی سی کمی واقع ہوئی ہے، اب یہ شرح چوہتر فیصد بنتی ہے۔
تصویر: Colourbox/A. Smalenski
زندگی میں آزادانہ فیصلے، 70 فیصد
سن دو ہزار بیس میں ستر فیصد جرمنوں کا کہنا تھا کہ ان کے لیے آزادنہ فیصلے کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ سروے میں شامل ستر فیصد جرمنوں کا کہنا تھا کہ انہیں اپنی زندگی کا رخ خود متعین کرنے کی مکمل آزادی چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سماجی انصاف، 64 فیصد
سن دو ہزار بیس میں سماجی انصاف کا موضوع چونسٹھ فیصد جرمنوں کے لیے اہم تھا۔ سن دو ہزار سترہ میں یہ شرح پینسٹھ فیصد تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
پرلطف زندگی، 63 فیصد
ایسے جرمنوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے، جن کی ترجیح پرلطف زندگی گزارنا ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں یہ شرح تقریباﹰ انسٹھ فیصد تھی لیکن سن دو ہزار بیس میں یہ بڑھ کر تقریباﹰ تریسٹھ فیصد ہو گئی۔
تصویر: Fotolia/pressmaster
اولاد کی خواہش، 59 فیصد
سن دو ہزار سترہ میں سروے میں شامل انسٹھ فیصد جرمنوں کا یہی کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ ان کا کوئی بچہ ہو جبکہ سن دو ہزار بیس میں بھی جرمنوں کی اس خواہش میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wolfraum
ہر طرح کی مدد کے لیے تیار، 53 فیصد
سن دو ہزار سترہ میں تقریباﹰ چون فیصد جرمنوں کا کہنا تھا کہ وہ دوسروں کی ہر قسم کی مدد کے لیے تیار ہیں۔ سن دو ہزار بیس میں اس شرح میں کمی دیکھی گئی اور اب تقریباﹰ تریپن فیصد جرمن باشندے کسی بھی دوسرے انسان کی ہر طرح سے مدد کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Robert B. Fishman
کامیاب کیریئر، 52 فیصد
سروے میں شامل باون فیصد افراد کا کہنا تھا کہ ان کے لیے کامیاب کیریئر انتہائی اہم ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ اور انیس کے دوران جرمنوں میں کامیاب کیریئر کی خواہش اکاون فیصد تھی۔
تصویر: Fotolia/Jürgen Fälchle
کچھ نیا سیکھنے کا شوق، 48 فیصد
اس سروے میں شامل اڑتالیس فیصد جرمنوں کا کہنا تھا کہ نجی زندگی ہو یا پھر دفتری معاملات، وہ کچھ نا کچھ نیا سیکھنے کی تلاش میں رہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
نئے تجربات، 44 فیصد
سن دو ہزار سترہ میں بیالیس فیصد جرمنوں کا کہنا تھا کہ وہ ایک ہی قسم کی روٹین سے تنگ آ چکے ہیں اور زندگی میں نئے تجربات کرنا چاہتے ہیں۔ سن دو ہزار بیس میں یہ شرح بڑھ کر تقریباﹰ چوالیس فیصد ہو گئی تھی۔
سن دو ہزار سترہ میں تقریباﹰ چالیس فیصد جرمنوں کے لیے دوسرے ممالک اور ان کی ثقافتوں کے بارے میں جاننا اہم تھا۔ تاہم کورونا وائرس اور سفری پابندیوں کے باوجود جرمنوں کی اس خواہش میں اضافہ ہی ہوا ہے اور اب بیالیس فیصد جرمن باشندے یہ خواہش رکھتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. El-Sahed
فطرت سے قربت، 42 فیصد
قدرتی ماحول میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی خواہش رکھنے والے جرمنوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں سروے میں شامل تقریباﹰ چالیس فیصد جرمن شہری قدرتی ماحول میں زیادہ وقت گزارنا پسند کرتے تھے جبکہ سن دو ہزار بیس میں یہ شرح بڑھ کر تقریباﹰ بیالیس فیصد ہو گئی۔
تصویر: Philipp von Ditfurth/dpa/picture-alliance
مذہب اور عقیدہ، 25 فیصد
سن دو ہزار بیس میں جن جرمن شہریوں کے انٹرویوز کیے گئے، ان میں سے پچیس فیصد کا کہنا تھا کہ مذہب اور عقیدہ ان کے لیے اہم ہے۔ سن دو ہزار سترہ اور انیس کے مقابلے میں اس شرح میں قدرے اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Jörg Carstensen/dpa/picture-alliance
سیاسی سرگرمیاں، 11 فیصد
سروے میں شامل گیارہ فیصد افراد نے اپنی زندگی میں سیاسی سرگرمیوں کو اہم قرار دیا۔ حالیہ تین برسوں کے دوران سیاسی معاملات میں دلچسپی لینے والے جرمنوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔