’ہفتے میں پانچ کے بجائے چار دن کام کرنے سے نوکریاں بچیں گی‘
16 اگست 2020
جرمنی میں گاڑیوں کی صنعت کورونا وائرس پھیلنے سے پہلے ہی مشکلات کا شکار ہو چکی تھی۔ اب جرمنی کی سب سے بڑی مزدور یونین نے تجویز پیش کی ہے کہ ہفتے میں چار دن کام کرنے سے ہزاروں افراد کی نوکریاں بچائی جا سکتی ہیں۔
اشتہار
جرمن معیشت میں گاڑیوں کی صنعت کا کردار کلیدی سمجھا جاتا ہے لیکن پہلے سے مشکلات کی شکار یہ صنعت کورونا وبا کے بعد اب مزید مشکلات سے دوچار ہے۔ خودکار مشینوں کے استعمال سمیت کئی دیگر وجوہات کی بنا پر بڑی تعداد میں ملازمین فارغ کیے جا چکے ہیں اور مزید ہزاروں افراد کی ملازمتیں ختم ہو جانے کا خدشہ بھی ہے۔
اس صنعت سے وابستہ افراد کو بے روزگار ہونے سے بچانے کے لیے جرمنی کی سب سے بڑی لیبر یونین نے تجویز دی ہے کہ ہفتے میں پانچ 'ورکنگ ڈیز‘ یعنی پانچ دن کام کرنے کے بجائے چار دن کر دیا جائے تو کئی افراد کی نوکریاں بچائی جا سکتی ہیں۔
ہفتے کے روز جرمن اخبار زود ڈوئچے سائٹنگ کو دیے گئے انٹرویو میں آئی جی میٹال یونین کے سربراہ ژورگ ہوفمان نے کہا، ''کام کرنے کے دن کم کرنا ایسی صنعتوں میں رونما ہونے والی اسٹرکچرل تبدیلیوں کا جواب ہو سکتا ہے۔ یوں گاڑیوں کی صنعت میں ملازمتیں ختم کرنے کے بجائے برقرار رکھی جا سکتی ہیں۔‘‘
آئی جی میٹال آؤڈی، بی ایم ڈبلیو اور پورشے سمیت کئی دیگر صنعتوں کے ملازمین کی ترجمانی کرتی ہے اور یہ یورپ کی بھی سب سے بڑی صنعتی یونین ہے۔
یونین آئندہ برس کے لیے صنعتوں کے ساتھ مذاکرات کے دوران یہ تجویز پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ہوفمان نے بتایا کہ مرسڈیز کاریں بنانے والی کمپنی ڈائملر سمیت کئی اداروں نے کام کرنے کا دورانیہ کم کرنے کے معاہدے کیے ہیں۔ انہوں نے اپنی تجویز میں یہ بھی کہا ہے کہ دورانیہ کم کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈجسٹمنٹ بھی کی جانا چاہیے۔
بڑی صنعت کے لیے مشکل وقت
جرمنی میں گاڑیوں کی صنعت سے قریب 830,000 لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور اس صنعت کا ملکی مجموعی قومی پیداوار میں حصہ پانچ فیصد کے قریب ہے۔
رواں برس کے اوائل میں وفاقی جرمن حکومت کے تحقیقی ادارے نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بد ترین صورت حال میں سن 2030 تک اس صنعت سے وابستہ 4 لاکھ لوگوں کا روزگار ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔
آئی جی میٹال کے سربراہ کا کہنا ہے کہ آئندہ مذاکرات میں وہ یہ مطالبہ بھی کریں گے کہ گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ بھی کریں۔
ش ح / ع آ (روئٹرز، ڈی پی اے)
فوکس ویگن بیٹل، ’انقلابی‘ گاڑی
نازی سوشلسٹوں کے ایک بڑے منصوبے نے دنیا کی کار ساز صنعت میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ 82 سال قبل اڈولف ہٹلر نے ریاست لوئر سیکسنی کی ایک فیکٹری میں ’بیٹل‘ کی تیاری کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ گاڑی آج بھی سڑکوں پر دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہٹلر کی ’عوامی کار‘
یہ تصویر 26 مئی 1938ء کی ہے، جب اڈولف ہٹلر کو پہلی مرتبہ فوکس ویگن بیٹل (کےفر) کی پروٹوٹائپ ماڈل کار دکھائی گئی تھی۔ نازیوں نے فرڈینانڈ پورشے سے کہا تھا کہ وہ ایک ایسی عوامی کار تیار کریں، جو سستی بھی ہو اور پائیدار بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عوامی سے فوجی گاڑی میں تبدیلی
مسلج افواج کو حاصل فوقیت، ہٹلر کی جنگی مہمات کی وجہ سے فوکس ویگن کو عسکری گاڑیوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ ساڑھے نو سو کلو وزنی یہ گاڑی محاذوں پر پیش پیش ہوتی تھی۔ روس میں ایک فوجی کارروائی کے بعد جنرل فان مانٹوئفل اپنے سپاہیوں کے ساتھ ایک گاڑی کو کیچڑ سے نکال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
بیٹل کی مقبولیت
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے صرف دس سال بعد فوکس ویگن کی وولفسبرگ میں قائم فیکٹری میں دس لاکھ بیٹل تیار ہو چکی تھیں۔ اس کار نے جرمن معیشت کی مضبوطی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نسل در نسل
فوکس ویگن کی بیٹل کے حوالے سے سوچ یہ تھی کہ ایسی گاڑی تیار کی جائے، جس میں چار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہو، جو قابل بھروسہ بھی ہو اور سستی بھی۔ 1960ء کی دہائی میں یہ کار بہت سے خاندانوں کی خواہشات کے عین مطابق تھی۔ فوکس ویگن 1200 نامی ماڈل میں ’سن رُوف‘ بھی متعارف کرا دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہل بھی چلایا گیا
فوکس ویگن ’کےفر‘ یا بیٹل کی ایک خاصیت یہ بھی رہی ہے کہ اسے کھیتی باڑی میں بھی استعمال کیا گیا۔ 1950ء کی دہائی میں ہل چلانے اور دیگر سخت کاموں میں کسی بیل یا ٹریکٹر کے بجائے بیٹل سی مدد لی گئی۔
تصویر: ullstein bild - Teutopress
پروڈکشن کی خاتمہ
ایک دور کا خاتمہ: یکم جولائی 1974ء کو جرمن شہر وولفسبرگ میں آخری بیٹل تیار کی گئی اور اس کا نمبر تھا 11.916.519۔ تاہم اس کے بعد بھی میکسیکو اور برازیل میں بیٹل کاریں تیار کی جاتی رہیں۔
تصویر: AP
کار سے حد سے زیادہ لگاؤ
میکسیکو کی بیٹل زندہ باد۔ میکسیکو کے شہر پوئبلا میں بیٹل کی پیداوار تیس جولائی 2003ء تک جاری رہی۔ میکسیکو میں قائم فوکس ویگن کی فیکٹری کے بہت سے ملازمین ایسے تھے، جنہوں نے آپس میں ہی شادیاں کر لی تھیں اور یہ اپنی شادی میں شرکت کے لیے بھی بیٹل میں ہی بیٹھ کر آئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
برازیل کی ’فسکا‘
1993ء میں برازیل کے اس وقت کے صدر اتامر فرانکو نے بیٹل کی دوبارہ سے پروڈکشن شروع کرنے کا حکم دیا۔ برازیل میں بیٹل کو فسکا کہتے ہیں۔ 1959ء سے 1986ء تک یہاں تقریباً تینتیس لاکھ فسکا تیار کی گئی تھیں جب کہ 1993ء سے 1996ء تک چھیالس ہزار بیٹل کاریں بنائی گئیں۔
تصویر: Volkswagen do Brasil
عوامی سے بین الاقوامی کار
دنیا کے دیگر ممالک جیسے جنوبی افریقہ، بیلجیم، آسٹریلیا اور انڈونیشیا میں بھی بیٹل کاریں تیار کی جاتی رہیں۔ جرمنی کی ایک عوامی کار نے سب کو متاثر کیا۔ دنیا بھر میں بائیس ملین بیٹل تیار اور فروخت ہوئیں۔ ابھی بھی بہت سے ممالک میں بیٹل سڑکوں پر دکھائی دیتی ہیں، جیسے اس تصویر میں مصر میں۔
تصویر: Masr Betelz Club
نئی بیٹل
1998ء میں فوکس ویگن نے نیو بیٹل متعارف کرائی۔ اس کار کا ڈیزائن بھی پرانی کار کی طرز پر تیار کیا گیا تھا، جیسا فرڈینانڈ پورشے نے تخلیق کیا تھا۔