ہلاکتیں 560 سے زائد، لیبیا کی اپوزیشن کا دعویٰ
22 فروری 2011یہ خبر معمر قذافی کی مخالف اپوزیشن کے حوالے سے العربیہ ٹی وی چینل پر نشر ہوئی تاہم لیبیا میں اتنی زیادہ تعداد میں ہلاکتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق تاحال نہیں ہو سکی۔
اس سے قبل لیبیا میں اپوزیشن کی ایک جماعت سے تعلق رکھنے والے اور ملکی دارالحکومت طرابلس کے ایک رہائشی محمد علی کا کہنا تھا کہ سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے حکومت مخالف مظاہرین کی لاشیں طرابلس کی مختلف سڑکوں پر پڑی ہیں۔
محمد علی نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ معمر قذافی کے وفادار سکیورٹی اہلکاروں نے طرابلس کے متعدد علاقوں میں مظاہرین کے خلاف خودکار ہتھیاروں کا اندھا دھند استعمال کیا اور ’ابھی تک کئی شدید زخمی افراد اور ہلاک شدگان کے لاشے‘ مختلف سڑکوں پر بے یار و مددگار پڑے ہیں۔
محمد علی کے مطابق سکیورٹی فورسز نے زخمیوں کو ہسپتال منتقل کرنے والی ایک ایمبولینس پر بھی فائرنگ کی۔ علی کے بقول شہر کے متعدد علاقوں میں رہائشی اپنے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں جبکہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے اعلانات کیے جا رہے ہیں کہ اگر کوئی بھی شخص اپنے گھر سے باہر نکلا، تو اسے گولی مار دی جائے گی۔
محمد علی منگل کے روز طرابلس سے دبئی پہنچے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ متعدد زخمی ہسپتال نہ پہنچائے جانے کی وجہ سے بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ لیبیا میں بین الاقوامی میڈیا پر پابندیوں اور انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون رابطوں میں بھی تعطل کے باعث ہلاک ہونے والے افراد کی اصل تعداد کی تصدیق کرنا بہت مشکل ہے۔ ان ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے حکومت اور مظاہرین کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی خاتون سربراہ ناوی پیلائی نے لیبیا میں حکام کو خبردار کیا ہے کہ عام شہریوں کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال اور بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کو ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے زمرے میں بھی لایا جا سکتا ہے۔
ناوی پیلائی نے یہ بھی کہا کہ لیبیا میں مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کرائی جائیں گی۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: مقبول ملک