1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتلبنان

حزب اللہ کے اعلیٰ فوجی کمانڈر طباطبائی کون تھے؟

امتیاز احمد روئٹرز اور اے ایف کے ساتھ
24 نومبر 2025

لبنانی دارالحکومت بیروت میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں حزب اللہ کے اعلیٰ فوجی کمانڈر حیثم علی طباطبائی (معروف بطور ابو علی طباطبائی) ہلاک ہو گئے۔ طباطبائی کون تھے اور ان کی ہلاکت حزب اللہ کے لیے کتنا بڑا نقصان ہے؟

یہ اسرائیلی حملہ بیروت کے گنجان آباد علاقے حارہ حریک میں ایک رہائشی عمارت پر کیا گیا، جہاں حزب اللہ کا اثرورسوخ ہے
یہ اسرائیلی حملہ بیروت کے گنجان آباد علاقے حارہ حریک میں ایک رہائشی عمارت پر کیا گیا، جہاں حزب اللہ کا اثرورسوخ ہےتصویر: Mohammed Yassin/REUTERS

ہفتے کو لبنان میں ہونے والا یہ حملہ نومبر 2024 میں امریکہ کی ثالثی میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے ایک سال بعد ہوا۔ یہ واقعہ نہ صرف جنگ بندی کی خلاف ورزی ہے بلکہ علاقائی تناؤ کو مزید بڑھانے کا باعث بن سکتا ہے۔

حملے کی تفصیلات اور انسانی نقصان

یہ اسرائیلی حملہ بیروت کے گنجان آباد علاقے حارہ حریک میں ایک رہائشی عمارت پر کیا گیا، جہاں حزب اللہ کا اثرورسوخ ہے۔ لبنان کی وزارت صحت کے مطابق اس حملے میں پانچ افراد ہلاک اور دیگر 28 زخمی ہوئے، جن میں عام شہری بھی شامل ہیں۔

اسرائیل کی فوج نے فوری طور پر دعویٰ کیا کہ یہ ایک '' انتہائی درست کارروائی‘‘ تھی، جس کا ہدف طباطبائی تھے، جو حزب اللہ کے جنرل سٹاف کے چیف اور اعلیٰ فوجی عہدیدار تھے۔ وہ حزب اللہ کے دوسرے اہم ترین کمانڈر تھے۔

حزب اللہ نے کچھ گھنٹوں بعد طباطبائی کی ہلاکت کی تصدیق کی اور انہیں ایک ''عظیم جہادی کمانڈر‘‘ قرار دیا، جو ''اسرائیلی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی آخری سانس تک کام کرتے رہے۔‘‘ تنظیم کے ایک سینئر عہدیدار محمود قماطی نے اس حملے کو ''سرخ لکیر عبور کرنے‘‘ والا قرار دیا اور کہا کہ یہ ''لبنان بھر میں حملوں کا دروازہ کھولتا ہے۔‘‘

یہ واقعہ نہ صرف جنگ بندی کی خلاف ورزی ہے بلکہ علاقائی تناؤ کو مزید بڑھانے کا باعث بن سکتا ہےتصویر: Houssam Shbaro/Anadolu/picture alliance

 امدادی کارکنوں کو عمارت کے ملبے سے لاشوں کو نکالنے میں مشکلات کا سامنا رہا، جبکہ علاقے میں رہائشی خوفزدہ ہیں کہ مزید حملے ہو سکتے ہیں۔

 حیثم علی طباطبائی کون تھے؟

حیثم علی طباطبائی 1968ء میں بیروت میں پیدا ہوئے جبکہ ان کی والدہ لبنانی اور والد ایرانی نژاد تھے۔ وہ حزب اللہ کی ''دوسری نسل‘‘ کے رہنما تھے، جو 1980ء کی دہائی میں تنظیم میں شامل ہوئے اور متعدد اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔انہوں نے ایلیٹ رضوان فورس میں اہم کردار ادا کیا اور  ڈویژن آپریشنز کی قیادت بھی کی۔

وہ شام اور یمن میں حزب اللہ کی فوجی کارروائیوں میں ملوث رہے، جہاں انہوں نے اتحادیوں کی مدد کی۔ سن 2024 کی جنگ کے دوران، جب اسرائیل نے حزب اللہ کی قیادت کو شدید نقصان پہنچایا، طباطبائی نے جنرل سٹاف کے چیف کا عہده سنبھالا اور  ''اسرائیل کے خلاف جنگ کی تیاری‘‘ کے لیے تنظیمی یونٹس کو بحال کرنے کی کوشش کی۔

اسرائیلی موقف اور جنگ بندی کی خلاف ورزی

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ یہ حملہ حزب اللہ کی ''دوبارہ مسلح ہونے‘‘ کی کوششوں کا جواب تھا، جو جنگ بندی کی خلاف ورزی ہے۔ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل حزب اللہ کو ''دوبارہ منظم ہونے‘‘ کی اجازت نہیں دے گا اور ساتھ ہی انہوں نے لبنان حکومت پر زور دیا کہ وہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرے۔ یہ حملہ بیروت میں کئی مہینوں بعد پہلا بڑا اسرائیلی حملہ ہے، حالانکہ جنگ بندی کے بعد جنوبی لبنان میں اسرائیل کے چھوٹے حملے جاری ہیں۔

حزب اللہ اور لبنانی حکام نے اس حملے کو ''شہری علاقے پر وحشیانہ حملہ‘‘ قرار دیاتصویر: Mohamed Azakir/REUTERS

حزب اللہ اور لبنانی حکام نے اس حملے کو ''شہری علاقے پر وحشیانہ حملہ‘‘ قرار دیا۔ یہ حملہ لبنان کے صدر کی اس حالیہ بیان کے دو دن بعد ہوا، جس میں انہوں نے اسرائیلی دباؤ کے باوجود حزب اللہ کے ساتھ مذاکرات کی خواہش ظاہر کی تھی۔

 ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل فوجی طور پر برتری رکھتا ہے اور مذاکرات میں سنجیدگی نہیں دکھا رہا، جو حزب اللہ کو مزید کمزور کرنے کی کوشش ہے۔

علاقائی اثرات اور ممکنہ نتائج

طباطبائی کی ہلاکت 2024ء کی جنگ کے بعد حزب اللہ کا سب سے بڑا نقصان ہے۔ تب اسرائیل نے حزب اللہ کی قیادت کو ختم کر دیا تھا۔ یہ واقعہ ایران کے حمایت یافتہ ''مزاحمت کے محور‘‘ کو مزید متاثر کر سکتا ہے لیکن حزب اللہ نے جواب دینے کا عندیہ دیا ہے۔

 لبنان کی معیشت، جو پہلے ہی بحران میں ہے، مزید دباؤ کا شکار ہو سکتی ہے، جبکہ بین الاقوامی برادری نے جنگ بندی برقرار رکھنے کی اپیل ہے۔

ایران کی جانب سے اس اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ نے اسے ایک ''بزدلانہ قتل‘‘ قرار  دیتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ بندی کی ''واضح  اور لبنان کی قومی خودمختاری کی وحشیانہ خلاف ورزی‘‘ ہے۔

ادارت: شکور رحیم

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں