ہلاک یا زخمی ہونے والے پاکستانی پولیو ورکرز، ازالے کا مطالبہ
30 جنوری 2020اس طرح کا مطالبہ پولیو مہم سے وابستہ افراد خود بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان میں اب تک اینٹی پولیو ویکسینیشن کے دوران فرائض ادا کرنے والے کئی افراد دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ کل بدھ انتیس جنوری کو بھی دو خواتین ورکرز کو صوبے خیبر پختونخوا کے علاقے صوابی میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ہلاک ہونے والی خاتون پولیو ورکرز میں سے ایک غنچہ کے خاوند نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''ہمارے چار بچے ہیں اور اب وہ ماں کے بغیر ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک کام ہے۔ ایک طرف طالبان کہتے ہیں کہ ہم یہ کام نہ کریں، ورنہ مارے جائین گے۔ دوسری طرف حکومت چاہتی ہے کہ ملک کو پولیو سے نجات ملے، جو ایک اچھا اور عظیم کام ہے۔ میری بیوی نے ایک عظیم کام کے لیے قربانی دی۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ حکومت کو ایسے تمام افراد کے لواحقین کے لیے مالی معاوضے کا اعلان کرنا چاہیے، جو اس طرح اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے مارے جائیں یا زخمی ہو جائیں، چاہے وہ سرکاری ملازم ہوں یا نہ ہوں۔‘‘
ذرائع کے مطابق اس واقعے کے بعد صوابی میں خوف کی فضا قائم ہوگئی ہے اور سینکڑوں پولیو ورکرز نے اپنا کام بند کر دیا ہے۔
اسی واقعے میں قتل ہونے والی دوسری خاتون کے خاوند شاہ زمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ کارکن اپنی جانوں پر کھیل کر قوم کو پولیو سے بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے تمام افراد کے اہل خانہ کو تلافی رقوم ادا کرے اور اینٹی پولیو ویکسینیشن ٹیموں کی زیادہ مؤثر حفاظت کی جائے۔‘‘ شاہ زمان کا کہنا تھا کہ ان کے تین بچے اب ماں کے بغیر ہیں، ''میں خود پولیس میں کام کرتا ہوں اور ایک پولیو ٹیم کی سکیورٹی پر مامور تھا۔ میں ٹیم کو چھوڑنے گیا تھا کہ مجھے پتہ چلا کہ میری بیوی کو شہید کر دیا گیا۔‘‘
ناقدین کا خیال ہے کہ اینٹی پولیو پروگرام کے اعلیٰ افسران تو بہت زیادہ تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں، تاہم گھر گھر جا کر کام کرنے والے رضا کاروں کی حالت بہت خراب ہے۔ مردان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون پولیو ورکر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ''ہمیں چار دن کے 2300 روپے ملتے ہیں اور ہمیں کھانے کے لیے ادائیگی اپنی جیب سے خود کرنا پڑتی ہے۔ گھنٹوں پیدل چلنا پڑتا ہے اور جان ہتھیلی پر رکھ کر گھومنا پڑتا ہے۔ لیکن کسی ورکر کے مارے جانے یا زخمی ہو جانے کی صورت میں متعلقہ گھرانے بے آسرا ہو جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہوتا رہا، تو پھر پولیو رضا کار اس مہم کا حصہ بننا ہی چھوڑ دیں گے۔‘‘
حیدر آباد سے تعلق رکھنے پولیو پروگرام کے ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کا اعتراف کیا کہ پولیو ورکرز کی حالت واقعی بہت خراب ہے۔
انہوں نے کہا، ''پولیو مہم میں جو حکومتی ملازمین ہیں، انہیں پھر بھی کچھ نہ کچھ معاوضہ مل جاتا ہے۔ ان کے لیے ایک پیکج ہے۔ تاہم وہ پولیو ورکرز، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے اور جو اجرتی مزدوروں کی طرح ہوتے ہیں، ان کے خاندانوں کو تو ان ورکرز کے ہلاک یا زخمی ہو جانے کی صورت میں کچھ بھی نہیں ملتا۔ نہ ان کی کوئی ہیلتھ انشورنس ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی لائف انشورنس۔‘‘
تاہم سوات کے علاقے مٹہ سے تعلق رکھنے والے عبدالجلال کہتے ہیں کہ حکومت پولیو ورکرز کے مسائل کو بہت توجہ دے رہی ہے۔
عبدالجلال، جو یونین کونسل بیدرہ، مٹہ، سوات میں پولیو مہم کے یو سی چیئرمین ہیں، نے کہا، ''جو سرکاری ملازم مارے جاتے ہیں، حکومت ان کے لواحقین کو تو معاوضہ بھی دیتی ہے اور ان کے پسماندگان یا عزیزوں کو سرکاری نوکریاں بھی۔ لیکن جو رضاکار مارے جاتے ہیں، ان کے لیے مالی تلافی کی رقوم شہدا پیکج سے ادا کی جاتی ہیں۔‘‘