ہلیری کلنٹن کا ’آخری دِن بھی‘ چیلنجنگ رہا
2 فروری 2013ہلیری کلنٹن نے جمعے کو امریکی محکمہ خارجہ سے رخصتی پر وہاں اپنے عملے کو الودع کہا، تاہم اس عہدے پر آخری روز بھی وہ فون پر ایک غیرملکی رہنما سے تبادلہ خیال کر رہی تھیں۔ اس مرتبہ ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں جمعے کو امریکی سفارت خانے پر ہونے والا حملہ اس کی وجہ تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ ایسی فون کال تھی، جو حالیہ مہینوں میں کافی جانی پہچانی سی ہو چکی ہے، بالخصوص گزشتہ برس ستمبر میں لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی سفارت خانے پر حملے کے بعد سے، جس میں سفیر کرس اسٹیونز اور دیگر تین امریکی ہلاک ہو گئے تھے۔
محکمہ خارجہ سے رخصت پر وہاں پرجوش عملے سے خطاب میں 65 سالہ کلنٹن نے کہا: ’’اس کام پر مجھے فخر ہے، جو ہم نے مل جل کر کیا۔‘‘
ان کا کہنا تھا: ’’بلاشبہ، ہم بہت پیچیدہ بلکہ خطرناک دَور میں رہ رہے ہیں، جیسے ہم نے آج ہی انقرہ میں اپنے سفارت خانے میں دیکھا، جہاں ہم پر حملہ کیا گیا اور ہم نے اپنے ایک غیرملکی سروس کے اہلکار کو کھو دیا جبکہ دیگر زخمی ہوئے۔‘‘
کلنٹن کا مزید کہنا تھا: ’’میں جانتی ہوں کہ اکیسویں صدی میں ہم جیسی دنیا بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اسے بہت سے مشکل دِنوں کا سامنا رہے گا۔‘‘
تاہم سابق خاتونِ اوّل اور نیویارک کی سینیٹر کا کہنا تھا کہ چار برس قبل وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے کے برعکس وہ آج زیادہ پُرامید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ دنیا بھر میں امن، ترقی اور خوشحالی کے لیے محکمہ خارجہ کا کام ہے۔
انقرہ میں حملہ
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انقرہ میں جو ہوا، اس کے متعلق جاننے کے لیے وہ تفتیش کر رہے ہیں۔ وہاں جمعے کو ایک خود کش بمبار نے سفارت خانے کے کمپاؤنڈ میں پہلی چیک پوائنٹ پر خود کو دھماکے سے اُڑا لیا تھا، جس کے نتیجے میں ایک مقامی ترک سکیورٹی گارڈ ہلاک ہو گیا۔
اے ایف پی کے مطابق اس دھماکے نے ایک مرتبہ پھر دنیا بھر میں تعینات 70 ہزار امریکی سفارت کاروں کے تحفظ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، جن میں سے بیشتر دنیا کے بحران زدہ علاقوں میں تعینات ہیں۔ نئے وزیر خارجہ جان کیری کے لیے ان کا تحفظ اوّلین ترجیحات میں سے ایک ہو گا۔ جان کیری نے جمعے کو وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھال لیا۔
ng/ai (AFP)