ہلیری کلنٹن کی ’سمارٹ پاور پالیسی‘
2 نومبر 2012جیسے جیسے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن چوٹی کے سفارتکار کی حیثیت سے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کی تیاریاں کر رہی ہیں ویسے ویسے کوئی بھی اس امر کا یقین کرنے کے لیے تیار نہیں کہ دو عشروں تک امریکی سیاست پر چھائے رہنے والے بل کلنٹن اور اُن کی اہلیہ ہلیری کلنٹن کبھی سیاسی منظر نامے سے اوجھل ہوں گے۔
گزشتہ ماہ یعنی ستمبر میں بن غازی میں قائم امریکی سفارت خانے پر ہونے والے حملے میں حفاظتی اقدامات میں کوتاہیوں کے الزام کے باوجود ہلیری کلنٹن پہلے کی طرح اب بھی واشنگٹن انتظامیہ کی مقبول ترین شخصیت ہیں۔
نیو یارک ٹائمز نے ہلیری کلنٹن کو ’ایک روک اسٹار سفارتکار‘ قرار دیا ہے۔ کلنٹن کی پذیرائی منگولیا کے صدارتی محل سے لے کر جارج واشنگٹن ٹاؤن یونیورسٹی تک میں کی گئی ہے۔ گزشتہ چار سالوں میں بحیثیت امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے جہاں گردی کی ہے۔ تمام پیش رو وزرائے خارجہ کے مقابلے میں انہوں نے دنیا کے متعدد ممالک میں اپنی انتھک محنت اور لگن سے جمہوریت کے فروغ اور اُن کے بقول ’اسمارٹ پاور‘ کے فروغ کی کوششیں کی ہیں۔
ہلیری کلنٹن کی طرف سے بارہا انکار کے باوجود اب بھی بہت سے افراد اس امر کا یقین رکھتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی کوشش کریں گی۔ رواں انتخابی سال کے دوران سیاسی فضا میں پائی جانے والی تلخی کے باوجود صدارتی امیدواروں کی ریٹنگ میں کلنٹن کا نام خاصا اوپر ہے۔ چند تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ 2016ء کے اگلے صدارتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی طرف سے ہلیری کلنٹن کی نامزدگی ممکن ہے۔
2008ء میں وہ باراک اوباما کے ساتھ مقابلے میں خاصی نزدیک آ چکی تھیں۔ انہوں نے 18 ملین ووٹوں کے حصول کا دعویٰ کیا تھا، ایک ایسے ملک میں جہاں قومی قیادت کسی خاتون کے سپرد کرنے کی سخت مخالفت پائی جاتی ہے۔ تب انہیں سابق امریکی صدر اور اپنے شوہر بل کلنٹن کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اُس وقت اوباما اور ہلیری کے مابین پرائمریز کی سطح پر کانٹے کا مقابلہ تھا۔ یہ امر بہت سے لوگوں کے لیے سخت تعجب کا باعث بنا کہ باراک اوباما نے ہلیری کلنٹن کو اپنی حکومت میں وزیر خارجہ کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔
کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ کلنٹن فیملی عقبی دروازے سے اقتدار میں دوبارہ آنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم 65 سالہ ہلیری کلنٹن صدر باراک اوباما کی کٹر وفادار اور بہت ثابت قدم رہی ہیں۔
تاہم ناقدین کے خیال میں ہلیری کلنٹن نے کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی، جیسی کہ ہنری کسنجر نے کمیونسٹ چین کے ساتھ بات چیت کے آغاز سے حاصل کی تھی۔ اس ضمن میں چند ناقدین کلنٹن کے دور میں امریکی سفارتکاری میں کسی بڑی کامیابی کے حاصل نہ ہونے کا ذمہ دار صدر باراک اوباما کو ٹھہراتے ہیں، جنہوں نے افغانستان، عراق اور عرب بہار جیسے معاملات کے ضمن میں اپنی پالیسیوں کا دائرہ بہت تنگ رکھا۔
km / mm (AFP)