1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہمارا دفاع توڑنا ناممکن ہے‘، پاکستانی فوج کا اصرار

2 اکتوبر 2016

پاکستانی فوج نے بین الاقوامی میڈیا کو کشمیر کا دورہ کروا کر یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستانی فوج کا دفاع توڑنا ناممکن ہے۔ بھارت کے بقول اس کے کمانڈوز نے پاکستانی کشمیر میں داخل ہو کر جنگجوؤں کو نشانہ بنایا ہے۔

Pakistan Armeesprecher Generalleutnant Asim Saleem Bajwa
تصویر: picture alliance/abaca/M. Aktas

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ پاکستانی فوج نے بین الاقوامی صحافیوں کے ایک گروپ کو ہفتے کے روز پاکستانی زیر انتظام کشمیر اور لائن آف کنٹرول کا دورہ کرایا اور بتایا کہ دفاعی طور پر جو حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں، بھارت کی طرف سے ان کے خلاف ورزی ممکن نہیں ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستانی فوج کی طرف سے بین الاقوامی صحافیوں کو متنازعہ وادی کشمیر کا اس طرح دورہ کروانا ایک غیر معمولی قدم ہے۔

پاکستانی سرحد سے ملحقہ بھارتی دیہات خالی کرا لیے گئے

مودی کو اپنا ڈرامہ بند کر کے امن کا راستہ اپنانا چاہیے، خورشید شاہ

کشمیر میں کنٹرول لائن پر فائرنگ، پاکستان میں غصے کی لہر

 

پاکستانی فوج اس بھارتی دعوے کو مسترد کرتی ہے کہ اس کے کمانڈوز نے ’سرجیکل کارروائی‘ کرتے ہوئے پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے تین کلو میٹر اندر تک رسائی حاصل کی اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا۔ بھارتی آرمی چیف دلبیر سنگھ نے اس مبینہ کارروائی کے لیے اپنے کمانڈروز کو شاباس دی ہے اور کہا کہ پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں کی گئی یہ عسکری کارروائی کامیاب رہی۔ تاہم بھارت کی طرف سے اس حوالے سے کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے گئے۔

ناقدین کے کہنا ہے کہ اگر اس بھارتی دعوے کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ بات پاکستانی فوج کے لیے انتہائی شرمندگی کا باعث ہو گی کیونکہ سخت انتظامات کے باوجود اس طرح بھارتی کمانڈوز کا پاکستانی کشمیر میں داخل ہونا درحقیقت ایک غیر معمولی پیشرفت ہو گا۔ یہ امر اہم ہے کہ سن دو ہزار گیارہ میں امریکی کمانڈوز نے اسلام آباد کی رضامندی کے بغیر ہی ایبٹ آباد میں ایک کارروائی کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا تھا اور یہ حملہ پاکستانی فوج کے لیے انتہائی سبکی کا باعث بنا تھا۔

پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ ہفتے کے دن بین الاقوامی صحافیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے لائن آف کنٹرول سے دو کلو میٹر دور تک لے گئے اور سکیورٹی حصار بھی دکھائے۔ اس موقع پر انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ تہہ در تہہ سکیورٹی رکاوٹوں کے باعث کسی بھارتی فوجی کا پاکستانی کشمیر میں داخل ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ انہوں نے البتہ کہا کہ دو پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت سرحد پار گولہ باری کے نتیجے میں ہوئی۔

’اُڑی حملے کے ثبوت پاکستان کو دے دیے گئے‘

’پاکستان نے مشرقی سرحد پر نظر رکھی ہوئی ہے‘

بھارت کے ساتھ کشیدگی، پاکستانی فوج ’ہائی الرٹ‘

 

ان بین الاقوامی صحافیوں کو ان چار فوجی چھاؤنیوں کا دورہ بھی کرایا گیا، جہاں بھارتی دعووں کے مطابق اس کے کمانڈوز نے کارروائی کی تھی۔ صحافیوں نے دیکھا کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر سے انتہائی قریب واقع پاکستانی کشمیر کے گاؤں منڈھول میں صبح سویرے بچے یونیفارم پہنے اسکولوں کی طرف رواں تھے جبکہ کاروباری مراکز فعال اور لوگوں کا ہجوم معمول کی زندگی کی گواہی دے رہا تھا۔

باجوہ نے بین الاقوامی نامہ نگاروں اور صحافیوں کو بتایا کہ وہ پاکستانی کشمیری لوگوں سے ملیں اور ان سے پوچھیں کہ حالات کیا ہیں، ’’آپ جا سکتے ہیں اور شہریوں سے مل سکتے ہیں۔ ہماری طرف سے کوئی پابندی نہیں ہے۔ یو این مشن، میڈیا اور عام پبلک چاہے تو وہاں جا کر خود حالات کا جائزہ لے۔‘‘

جنرل باجودہ کے ان دعووں کی تصدیق تو ممکن نہیں لیکن اے ایف پی کے رپورٹر نے بھارتی زیر انتظام کشمیر کے پونچھ سیکٹر سے ملحقہ پاکستانی کشمیر کے علاقے تتہ پانی سیکٹر میں ایک مقامی شہری سردار جاوید سے صورتحال دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ بھارتی کمانڈوز کی کارروائی کے بارے میں کوئی شواہد نہیں ہیں۔

بھارتی کشمیر میں علیحدگی پسند نوجوان رہنما برہان وانی کی جولائی میں ہونے والی ہلاکت کے بعد سے وہاں شروع ہونے والے عوامی مظاہروں کی شدت ابھی تک برقرار ہےتصویر: Reuters/D.Ismail

اس سینتیس سالہ مقامی صحافی نے کہا، ’’میں یہ بات کہ بھارتی کمانڈوز پاکستانی کشمیر میں داخل نہیں ہوئے اس لیے نہیں کہہ رہا کیونکہ یہ پاکستانی فوج کا موقف ہے بلکہ مجھے یہ بات اس لیے معلوم ہے کیونکہ میں لائن آف کنٹرول کے قریب رہتا ہوں۔‘‘ سردار جاوید نے مزید کہا، ’’میں ایک مقامی صحافی ہوں۔ یہاں کوئی بھی اہم خبر بہت جلدی گردش کرتی ہے اور مقامی لوگوں کو فوری طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ اس علاقے میں کیا ہو رہا ہے۔‘‘

کچھ پاکستانی مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج کی طرف پاکستانی کشمیر میں کمانڈو ایکشن کا دعویٰ دراصل اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ وہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں کشمیریوں کے خلاف ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی خبروں سے میڈیا کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔ بھارتی کشمیر میں علیحدگی پسند نوجوان رہنما برہان وانی کی جولائی میں ہونے والی ہلاکت کے بعد سے وہاں شروع ہونے والے عوامی مظاہروں کی شدت ابھی تک برقرار ہے۔ اس دوران مختلف جھڑپوں اور پرتشدد واقعات میں اسّی کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں