’ہمارے ملک میں مظاہرین ایسا کرتے تو پولیس گولی مار دیتی‘
شمشیر حیدر
9 جولائی 2017
ہیمبرگ میں جی ٹوئنٹی سمٹ کے دوران مظاہرین اور پولیس کے مابین جھڑپوں کے سلسلے اجلاس کے خاتمے کے بعد بھی جاری رہے۔ ہیمبرگ میں نئے آنے والے تارکین وطن مظاہرین کے جلاؤ گھیراؤ سے پریشان اور پولیس کے رویے پر حیران دکھائی دیے۔
اشتہار
جرمنی کے بندرگاہی شہر ہیمبرگ میں سات اور آٹھ جولائی کو ایک جانب دنیا کی بیس طاقتور معیشتوں کے سربراہان مذاکرات کر رہے تھے اور اس علاقے سے کچھ ہی دور گزشتہ دو روز کے دوران پولیس اور مظاہرین کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔
ان مظاہرین میں مختلف طرح کے لوگ شامل تھے۔ کچھ انتہائی بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے تھے، کچھ ماحول سے متعلق طاقتور ممالک، خاص طور پر ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف تھے اور ایسے لوگ بھی تھے جو عالمگیریت اور عالمی تجارتی معاہدوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ مظاہروں میں شریک کئی نوجوان لڑکے لڑکیوں کی شرٹوں پر ’مہاجرین خوش آمدید‘ بھی درج تھا۔
’’دوزخ میں خوش آمدید‘‘
01:20
یہ سب کچھ شہر کے ایک حصے میں ہو رہا تھا لیکن شہر کے دوسری جانب زندگی معمول پر دکھائی دے رہی تھی۔ مرکزی اسٹیشن کے قریب ہی ایک مصری مہاجر ابراہیم علی اور اس کے کچھ ساتھی مظاہرے میں شرکت کے لیے تیاری میں مصرف مرد و زن کو بیئر، فلافل اور دیگر کھانے پینے کی اشیا فروخت کر رہے تھے۔
کئی دنوں سے جاری گہما گہمی ہیمبرگ میں بسنے والے سبھی لوگوں کے لیے بیک وقت خوشی اور پریشانی کا سبب بنی ہوئی تھی۔ انتیس سالہ ابراہیم سن 2011 میں مصر سے ہجرت کر کے جرمنی آیا تھا۔ اسے مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کرنے، دکانیں لوٹنے اور آگ لگانے پر حیرت ہو رہی تھی۔
ابراہیم کہنے لگا، ’’اگر یہ سب کچھ میرے ملک میں ہوتا، تو پولیس مظاہرین پر فائر کھول دیتی۔‘‘ اس کے لیے مظاہرہ کرنے کی وجوہات بھی حیرت کا باعث تھیں، ابراہم کے مطابق، ’’ریاست سب کچھ مہیا کرتی ہے، گھر، ملازمت، تعلیم جیسی سبھی ضروریات۔ اس کے باجود لوگ خوش نہیں ہیں، یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔‘‘
شامی مہاجر محمد حلبی اٹھارہ ماہ قبل ہی بطور مہاجر جرمنی آ کر آباد ہوا ہے۔ مظاہروں کے دوران جو کچھ ہو رہا تھا، وہ اس کے لیے بھی ناقابل فہم ہے اور اسی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے حلبی کہنے لگا، ’’یہ لوگ پاگل ہیں، مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا۔ ان لوگوں کا ملک اتنا خوبصورت ہے لیکن یہ اسے تباہ کر رہے ہیں۔‘‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مابین ملاقات میں شام میں جنگ بندی پر اتفاق کی خبروں پر حلبی کا کہنا تھا، ’’یہ ایک مذاق ہے۔ یہ لوگ سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ یہ شام اور مشرق وسطیٰ میں اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیں۔‘‘
ہیمبرگ میں شانزن کا علاقہ کسی میدان جنگ سے کم نہیں
لوٹی ہوئی دکانیں، جلتا ہوا سامان، تیز دھار پانی اور آنسو گیس۔ گزشتہ روز جرمن شہر ہیمبرگ کا یہ حال تھا۔ اس شہر میں دنیا کے بیس اہم ممالک کے سربراہاں اکھٹے ہیں۔ ہنگامہ آرائی میں کئی سو افراد زخمی ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
مظاہروں کا مقصد
مظاہرین سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ چاہتے ہوئے ایک ایسے آزادانہ نظام کے حامی ہیں، جس میں پیسے اور حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہو گا۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
سیاہ بلاک
ہیمبرگ میں ہونے والے جی ٹوئنٹی سربراہ اجلاس کے ہنگامہ آرائی میں ملوث بائیں بازو کے سخت گیر موقف رکھنے والے خود کو ’بلیک بلاک‘ یا سیاہ بلاک کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ چند سو افراد آج کل شہ سرخیوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
بلیک بلاک کون ہیں؟
بلیک بلاک عام طور پر سخت گیر موقف رکھنے والے بائیں بازو کے افراد ہیں اور ان میں انارکسٹ یا افراتفری پھیلانے والے بھی شامل ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ باقاعدہ کوئی منظم تنظیم تو نہیں بلکہ احتجاج کا ایک انداز ہے۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
’شانزن فیئرٹل‘ میں لوٹ مار
تشدد پر آمادہ کئی سو افراد نے ہیمبرگ کے علاقے ’شانزن فیئرٹل‘ میں رات پھر ہنگامہ آرائی کی۔ اس دوران دکانوں کو لوٹا گیا اور املاک کو آگ لگائی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
اضافی نفری
تین گھنٹوں کے بعد پولیس کی اضافی نفری طلب کی گئی اور تشدد پر آمادہ ان مظاہرین کو کچھ حد تک پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوئی۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
تیز دھار پانی
مظاہرین کے خلاف پولیس کو تیز دھار پانی کا استعمال کرنا پڑا اور چند مقامات پر تو آنسو گیس کے گولے بھی برسائے۔ اس دوران حکام نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے فضا سے بھی نگرانی جاری رکھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schrader
تبدیلی کا وقت آ گیا ہے
بندرگاہی شہر ہیمبرگ میں مظاہرین نے کشتیوں کے ذریعے بھی احتجاج کیا۔ تحفظ ماحول کی تنظیم گرین پیس نے پیرس معاہدے سے دستبرداری کے امریکی فیصلے کو تنقید کا نشایا بنایا۔
تصویر: Reuters/F. Bimmer
پولیس پر حملے
مشتعل مظاہرین نے مختلف مقامات پر پولیس پر شیشے کی خالی بوتلیں برسائیں اور پتھراؤ بھی کیا۔
تصویر: Reuters/P. Kopczynski
’شانزن فیئرٹل‘ کا حال
ہیمبرگ کا شانزن فیئرٹل خانہ جنگی کے شکار کسی شہر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ حکام کے مطابق اس دوران 213 پولیس افسر زخمی ہوئے جبکہ دو سو سے زائد مظاہرین کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/D. Bockwoldt
ہفتے کے دن کا پرسکون آغاز
رات کے مختلف اوقات میں جاری رہنے والی ہنگامہ آرائی کے بعد ہفتے کی علی الصبح حالات پولیس کے قابو میں تھے۔ تاہم اس کے بعد مظاہرین نے پھر سے اکھٹے ہونا شروع کر دیا۔