1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمارے والدین کب بوڑھے ہوتے ہیں؟

24 جون 2024

اپنے والدین کو جوانی سے بڑھاپے کی طرف بڑھتے دیکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہمیں ان کے بوڑھے ہونے کا ایک دم احساس ہوتا ہے۔ ہم پھر حیرانی سے سوچتے ہیں کہ یہ کب اور کیسے ہوا۔ حالانکہ ان کی آدھی زندگی ہمارے سامنے ہی گزری ہوتی ہے۔

تصویر: privat

مجھے میری امی کچھ ہفتوں سے اچانک بوڑھی لگنا شروع ہو گئی ہیں۔ اس سے پہلے مجھے کبھی وہ بوڑھی نہیں لگیں۔ ہاں کچھ سالوں سے کمزور ہوتی جا رہی تھیں لیکن ایسا کبھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ اب جوانوں کی کیٹیگری سے نکل کر بزرگوں کی کیٹیگری میں داخل ہو چکی ہیں۔ ان کا جسم کمزور ہو چکا ہے۔ وہ ہر وقت تھکی تھکی سی رہتی ہیں۔ ان کا کھانا پینا بھی کم ہو گیا ہے۔ انہوں نے گھر میں اپنے اختیارات بھی کم کر دیے ہیں۔ پہلے وہ جس استحاق سے ہمیں ڈانٹتی تھیں یا ہمیں کوئی کام کہتی تھیں، وہ کہیں غائب ہو گیا ہے۔ یہ دیکھ کر بہت برا لگتا ہے۔ کوشش کرتی ہوں کہ ہر وقت ان کے ساتھ رہوں۔ ان کی باتیں سنوں۔ جواب دوں۔ ان کی ادھوری خواہشات پوری کروں اور ان کی زندگی ان کے لیے بہتر بناؤں۔ 

میں یہ سب تو کسی نہ کسی حد تک کر سکتی ہوں لیکن ان پر آنے والے بڑھاپے کو پیچھے نہیں دھکیل سکتی۔ یہ تو قدرت کا نظام ہے جس سے ہر انسان کو گزرنا پڑتا ہے۔ والدین اور بچوں کے مابین محبت کچھ ایسی ہوتی ہے کہ نہ ماں باپ بچوں کی تکلیف برداشت کر سکتے ہیں اور نہ بچے اپنے والدین کو کسی پریشانی میں دیکھ سکتے ہیں۔ والدین اپنی جوانی اپنے بچوں کی زندگی بنانے میں صرف کر دیتے ہیں اور بچے اپنے جوانی اپنے والدین کے بڑھاپے کو بہتر بنانے میں گزار دیتے ہیں۔ 

تاہم، اپنے والدین کو بوڑھے ہوتا دیکھنا ایک تکلیف دہ تجربہ ہے۔ اپنے والدین کو جوانی سے بڑھاپے کی طرف بڑھتے دیکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ہمیں ان کے بوڑھے ہونے کا ایک دم احساس ہوتا ہے۔ ہم پھر حیرانی سے سوچتے ہیں کہ یہ کب اور کیسے ہوا۔حالانکہ ان کی آدھی زندگی ہمارے سامنے ہی گزری ہوتی ہے۔ ہم نے انہیں ہر اونچ نیچ سے گزرے ہوئے دیکھا ہوتا ہے۔ ان کی ہر بیماری کا ہمیں علم ہوتا ہے۔ ہم بس اسے وقتی بیماری سمجھتے ہیں۔ وہ کچھ دن میں بھلے چنگے ہو جاتے ہیں۔ ہم مطمئن ہو جاتے ہیں۔ لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اس بیماری نے ان پر کیا اثر ڈالا ہوگا۔ ہم باقاعدگی سے ان کی ذیابطیس اور بلڈ پریشر چیک کرتے ہیں۔ انہیں وقت پر ادویات دیتے ہیں لیکن یہ بیماریاں انہیں اندر سے کیسے کھا رہی ہیں، یہ ہم نہیں جان پاتے۔

اس عمر میں انہیں ذرا سی بیماری بھی شدید متاثر کرتی ہے۔ پچھلے سال میرے والدین کو ایک ساتھ ڈینگی بخار ہو گیا تھا۔ ہم سب پریشان ہو گئے تھے۔ میں ملک سے باہر تھی۔ واپس آنا مشکل تھا۔ میرے دیگر بہن بھائی کبھی ایک کو دوا دے رہے تھے تو کبھی دوسرے کو۔ امی نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔ میں نے فون کیا تو میں رو پڑی۔ انہیں کہا کچھ تو کھائیں، کچھ تو پیئں۔ ایسے تو آپ ٹھیک نہیں ہوں گی۔ وہ مجھے روتا دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔ اپنی بیماری میں بھی انہیں اپنے بچے کے آنسو برداشت نہیں ہو رہے تھے۔ پھر انہوں نے زبردستی کھانا پینا شروع کیا اور کچھ دنوں میں صحت یاب ہو گئیں۔

 ہم بچے اپنے والدین کے بارے میں کافی شدت پسند ہوتے ہیں۔ ہم سوچ بھی نہیں پاتے کہ وہ کبھی کمزور پڑیں گے، بیماری کا شکار ہوں گے، ہمارے محتاج ہوں گے یا ہمارے اوپر خود کو فوقیت دیں گے، پھر سے اپنی زندگی شروع کریں گے اب چاہے وہ ان کی پسند کی کوئی سرگرمی ہو یا اپنے ساتھی سے بچھڑنے کے بعد کسی دوسرے انسان سے محبت میں مبتلا ہوگا۔ ہم ان کی موت کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے حالانکہ موت تو برحق ہے۔ ہماری اپنے والدین سے محبت اس قدر شدید ہوتی ہے۔ تاہم، اس سب میں انہیں کمزور اور بے بسی کی حالت میں دیکھنا سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتا ہے۔

ہم اپنے والدین کو پھر سے جوان تو نہیں کر سکتے لیکن ان کے لیے ان کے بڑھاپے کو آرام دہ اور خوش گوار بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ان کے اس دنیا سے جانے کے بعد ان کی تصاویر انلارج کروا کر گھر میں لگانے اور ہر آئے گئے کو ان کے قصے سنانے سے بہتر ہے کہ ان کی زندگی میں ان کے ساتھ جتنا ہو سکے وقت گزارا جائے۔ انہیں توجہ دی جائے اور ان کے ساتھ حسین یادیں بنائی جائیں۔ 

 تو ساتھیو، اپنے والدین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں۔ ان کے پاس بیٹھیں۔ ان کی باتیں توجہ سے سنیں۔ ان کے کھانے پینے، علاج، ادویات اور آرام کا خاص خیال رکھیں۔ انہیں کھانے میں جو پسند ہے وہ کھلائیں۔ ان کی خواہشات پوری کریں۔ انہیں ایک تخت یا بستر تک محدود نہ کر دیں۔ انہیں چاق و چوبند رکھنے کے لیے اپنے ساتھ واک پر لےجائیں۔ ان کے ساتھ ڈھیروں تصاویر اور ویڈیوز بنائیں۔ ہو سکے تو اپنے گھر میں ایک فوٹو وال بنا کر وہاں ان کی یادیں محفوظ کریں۔ یقین مانیں آپ کی ذرا سی توجہ اور پیار ان کے بڑھاپے کو ان کے لیے ان کی زندگی کا حسین ترین دور بنا دیں گے۔

 نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں