1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہمارے گھر کی عورتیں نوکری نہیں کرتیں‘

29 اگست 2021

جن گھروں میں لڑکیوں کواعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے یہ سوچ کر روک دیا جاتا ہےکہ ان کے سسرال والوں کو شاید یہ پسند نہ ہو۔ ایسی لڑکیوں کی خودمختاری اورعزت نفس مجروح اور ان کےبچوں کا مستقبل اکثر تاریک ہی ہوتا ہے۔ تحریم عظیم بلاگ

DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تصویر: privat

 

آپ نے اکثر لوگوں کو کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ ان کے گھر کی عورتیں نوکری نہیں کرتیں۔ بعض گھروں میں اسی وجہ سے لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ کچھ گھروں میں لڑکیاں جتنا چاہیں یا اچھا رشتہ آنے تک پڑھ سکتی ہیں لیکن نوکری کا فیصلہ انہیں اپنے بڑوں سے پوچھ کر ہی کرنا پڑتا ہے۔ کئی گھروں میں لڑکیوں کے بارے میں فیصلے ان کے اگلے گھروں کے بارے میں سوچ کر کیے جاتے ہیں۔ جانے کیسے لوگ ہوں۔ یہی سوچ کر انہیں اور ان کی سوچ کو قید رکھا جاتا ہے تاکہ انہیں وہاں ایڈجسٹ ہونے میں مشکل نہ ہو۔

اٹھارہ سالہ عروج کی بھی سوچ ایسی ہی تھی۔ محدود۔ اس نے جیسے تیسے ایف اے تو کر لیا تھا۔ بی اے بھی کر لیتی اگر اس کی پھپھو اس کا رشتہ لے کر نہ آتیں۔ ان کا بیٹا بیس سال کا تھا۔ تعلیم اس کی بھی عروج جتنی ہی تھی۔ اس نے پڑھ کر کرنا بھی کیا تھا۔ باپ کا اچھا خاصہ کاروبار تھا جو آگے چل کر اسی نے سنبھالنا تھا۔ عروج کے گھر والے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ انہیں کچھ کرنا ہی نہیں پڑا۔ پہلا رشتہ ہی بہترین آ گیا تھا۔ خاندان کا لڑکا تھا۔ دیکھابھالا تھا۔ انہوں نے فوراً ہاں کر دی۔ پھپھو خوشی سے نہال ہو گئیں۔ انہوں نے اسے گلے سے لگایا اور کہا اسے مزید پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ روٹی بیلنے کے لیے بیلن چاہیے ہوتا ہے، ڈگری نہیں۔ عروج  بھی ہنس دی۔ واقعی اس نے آگے پڑھ کر کیا کرنا تھا۔بلوچستان: علم کی روشنی پھیلاتی چلتی پھرتی ’’کیمل لائبریری‘‘

 

اس کے والدین بھی متفق تھے۔ انہوں نے بی اے کے بعد بھی اس کی شادی ہی کرنی تھی۔ یوں دو ماہ بعد عروج کی شادی ہو گئی۔ نئے کپڑے، جوتے، زیورات، میک اپ اور شوہر۔ عروج ساتویں آسمان پرتھی۔ شادی کا ایک سال وہیں گزر گیا۔ بیٹے کی پیدائش اسے زمین پر لے آئی۔ پتہ چلا پھپھو ساس بن چکی ہیں۔ انہوں نے پورے گھر کی ذمہ داری اس پر ڈال دی۔ اس نے احتجاج کرنا چاہا تو انہوں نے کہا کہ اسے کچھ انوکھا کرنے کو نہیں کہا جا رہا۔ ساری عورتیں یہی کام کیا کرتی ہیں۔

عروج صبح چھ بجے سے کام کرنا شروع کرتی تو رات تک مصروف رہتی۔ کبھی سسر کا ناشتہ بنا رہی ہے تو کبھی ساس کے پیروں کی مالش کر رہی ہے۔ شوہر اور بچے کی ذمہ داری الگ۔ گھر کی صفائی، کھانا بنانا، لگانا، برتن سمیٹنا، انہیں دھونا، ہفتے میں دو بار گھر بھر کے کپڑے دھونا۔ چار سال بعد اس کے بچوں کی تعداد تین ہو چکی تھی۔ اسی حساب سے اس کے کام بھی بڑھ چکے تھے۔

پھر کچھ ایسا ہوا جس کے ہونے کا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ اس کا شوہر دوسری شادی کرنا چاہتا تھا۔ وہ جس عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا، اس نے اس سے عروج اور بچوں کو چھوڑنے کو کہا تھا۔ عروج کے شوہر نے اس سے کہا کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کا سامان لے کر اس کے گھر سے نکل جائے۔عروج نے اسے بہت سمجھایا لیکن اس نے جیسے کان لپیٹ رکھے تھے۔ عروج نے اپنے ساس سسر کی طرف دیکھا تو وہ ایسے بن گئے جیسے اسے جانتے ہی نہ ہوں۔

کوئلے کی کان کے کارکن کے گھر سے نکلنے والا ’ہیرا‘

عروج اپنے بچوں سمیت اپنے والدین کی طرف آ گئی۔ اگلے ہفتے اسے طلاق کا نوٹس مل گیا۔عروج کے والدین نے کئی بار اس کے ساس سسر سے بات کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے صاف کہہ دیا کہ وہ اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتے۔

 عروج کے پاس اپنی ایف اے کی ڈگری اور تین بچوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس کے نکاح نامے پر زیادہ تر حصے کٹے ہوئے ہیں۔ حق مہر کے خانے میں پانچ ہزار روپے سکہ رائج الوقت لکھا ہوا ہے۔

جس شادی کے لیے اسے زندگی بھر کچھ کرنے نہیں دیا گیا، وہ شادی ختم ہو رہی ہے۔ اس شادی سے اسے درد اور تکلیف کے علاوہ تین بچے اور پانچ سال ایک گھر میں کام کرنے کا تجربہ ملا ہے۔  وہ پوچھتی ہے خاندانوں کی عزتوں کی خاطر لڑکیوں پر جو پابندیاں لگائی جاتی ہیں، اس کے بدلے میں انہیں کیا ملتا ہے؟

تعلیم اور حفظان صحت: بھارتی لڑکیوں کے مسائل

آج وہ اپنے تین بچوں کے ساتھ کھلے آسمان تلے کھڑی ہے۔ اسے اپنی زندگی وہیں سے شروع کرنا ہے جہاں اس کی شادی سے پہلے ختم ہوئی تھی۔ وہ کہتی ہے کہ اگر اس کی شادی برابری کی بنیاد پر ہوئی ہوتی، اسے مزید پڑھنے سے منع نہ کیا جاتا، اسے اپنا کیریئر بنانے دیا جاتا تو شاید آج وہ اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دے سکتی تھی۔ اب اسے پانچ سال پیچھے جانا ہے۔ بی اے مکمل کرنا ہے۔ پھر کہیں مناسب سی نوکری کرنی ہے تاکہ اپنی اور اپنے بچوں کی ضروریات پوری کر سکے۔  

 

تحریم عظیم

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں