ان لڑکیون نے 2016 میں اپنے گاؤں میں خواتین کے فٹبال میچ کروائے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان دو لڑکیوں کی محنت کے سبب اس علاقے میں لڑکیوں کی آٹھ فٹبال ٹیمیں وجود میں آ گئیں۔
اشتہار
پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان کے گاؤں شِمشال سے تعلق رکھنے والی دو بہنوں نے پسماندگی اور وسائل کی کمی کو اپنے عزم کے آگے نہیں آنے دیا۔ کرشمہ عنایت اور سمیرا عنایت نے جو سوچا کر دکھایا۔ ان لڑکیون نے 2016 میں اپنے گاؤں میں خواتین کے فٹبال میچ کروائے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان دو لڑکیوں کی محنت کے سبب اس علاقے میں لڑکیوں کی آٹھ فٹبال ٹیمیں وجود میں آ گئیں۔
شِمشال گاؤں چین کی سرحد قریب ہے واقع ہے۔ اس علاقے میں وسائل کی کمی ہے، لوگ بمشکل پیٹ بھرنے کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں اور تعلیم کے مواقع کچھ زیادہ نہیں۔ ایسے میں ایک اور اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ کم عمری کی شادیاں بہت عام ہیں۔ یہی صورتحال کم عمر لڑکیوں کرشمہ عنایت اور سمیرا عنایت کی اس سوچ کا باعث بنی کسی تندرست ذہنی سرگرمی کا آغاز ہونا چاہیے۔ اسی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہو ئے دونوں نے اراداہ کیا کہ فٹبال کے لیے کام کیا جائے۔
شمشال کے میدانوں میں کھیلتی قد آور، چست اور مضبوط ارادوں کی حامل کرشمہ اور سمیرا کی طرف سے فٹبال کو لگائی جانے والی ہر ایک کِک ان کو جیسے ان کی منزل کے اور قریب لاتی گئی۔ وقت گزرتا رہا، شمشال کے ساتھ ساتھ بالائی ہنزہ سے اتنی خواتین کھلاڑی جمع ہو گئیں کہ آٹھ ٹیمیں وجود میں آ گئیں۔ ٹورنامنٹ کرایا گیا جو کامیاب رہا۔
ثناء میر، دنیا کی بہترین خاتون بالر
05:05
اگر انسان ہمت کرے تو مٹی سے سونا پیدا کرسکتا ہے، تاریکیوں کا سفر ترک کر کے شہرت و دولت حاصل کرسکتا ہے۔ یہ بات بالکل دُرست ہے کہ ہمت اور صحیح طریقے پر محنت کے بغیر کوئی شخص کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ کرشمہ عنایت اور سمیرا عنایت نے اسی بات کا ثابت کیا اور گلگت بلتستان گرلز فٹبال لیگ کا خواب پورا کیا۔
وسائل کی کمی کے شکار ان دور دراز علاقوں میں فٹبال کی ترقی کا بیڑا ابھی تک ان دو بہنوں نے بغیر کسی حکومتی مدد کے تن تنہا ہی اٹھا رکھا ہے۔ چند ایک غیر سرکاری تنظیموں نے تو ان کی مدد کسی حد تک کی ہے مگر حکومتی سرپرستی کی وہ ابھی تک منتظر ہی ہیں۔
سُپر کبڈی لیگ میں خواتین کھلاڑیوں کی شاندار کارکردگی
پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر لاہور میں سُپر کبڈی لیگ جاری ہے۔ اس لیگ میں ملک بھر کے مختلف شہروں کی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ اس موقع پر خواتین کبڈی کی کھلاڑیوں کے مقابلے کا بھی انعقاد کیا گیا۔
تصویر: Super Kabaddi League
مقابلے کو شائقین نے خوب پسند کیا
لڑکیوں کی دو ٹیمیں اسٹرابیری ایمبیشنز اور اسٹرابیری ڈریمز کے درمیان اس مقابلے کو شائقین نے خوب پسند کیا۔ قومی چیمئن شپ کے علاوہ یہ پہلا موقع تھا کہ کبڈی کی خواتین کھلاڑیوں نے پاکستان میں کسی مقابلے میں اپنے کھیل کے جوہر دکھائے ہیں۔
تصویر: Super Kabaddi League
جاندار مقابلہ
لاہور، سیالکوٹ، گجرانوالہ، مظفر گڑھ اور ملک کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والی ان کھلاڑیوں نے اپنی شاندار کارکردگی سے حاضرین سے خوب داد وصول کی۔
تصویر: Super Kabaddi League
’’ساری رات سو نہیں پائی‘‘
کھلاڑی لائبہ مسعود کا کہنا تھا، ’’میں اس کھیل کے لیے اتنی پرجوش تھی کہ میں ساری رات سو نہیں پائی‘‘۔ ایک اور کھلاڑی شانزے سیالکوٹ میں اپنا پرچہ دے کر میچ کھیلنے لاہور پہنچی تھیں۔ اس کھیل میں اسٹرابیری ایمبیشنز، اسٹرابیری ڈریمز کو ہرانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
تصویر: Super Kabaddi League
قومی کبڈی ٹیم کی کپتان
پاکستان کی قومی کبڈی ٹیم کی کپتان خزیمہ سعید کا کہنا ہے،’’ ہم بیرون ملک کھیل چکی ہیں لیکن یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ہم پاکستانی شائقین کے سامنے کھیل رہی ہیں۔ اس لیے بہت زیادہ خوشی بھی ہے اورتھوڑی بہت گھبراہٹ بھی۔‘‘
تصویر: Super Kabaddi League
کھیلوں میں لڑکیوں کی شمولیت
سُپر کبڈی لیگ کے بانی حیدر علی داؤد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا،’’ لڑکیوں کی ٹیموں کے مقابلوں کا انعقاد اس لیے ضروری تھا تاکہ کھیلوں میں لڑکیوں کی شمولیت اور خاص طور پر کبڈی میں ان کے حصہ لینے کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکے۔‘‘
تصویر: Super Kabaddi League
لڑکیوں کی کبڈی ٹیم کا مستقبل
حیدر علی داؤد کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی کبڈی ٹیم کا مستقبل بہت روشن ہو سکتا ہے اگر انہیں میڈیا کوریج دی جائے اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر ان کے کھیل کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔