اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے میونخ میں سلامتی کے موضوع پر جاری بین الاقوامی اجلاس میں اپنے خطاب میں ایران کو سخت دھمکیاں دی ہیں۔ انہوں نے ایران کو خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’ہمیں آزمایا نہ جائے‘‘۔
اشتہار
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن باہو نے تہران حکومت پر مشرق وسطٰی میں جارحیت پھیلانے کا الزام عائد کیا۔ اس موقع پر نیتن یاہو نے اجلاس میں شریک ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے لوہے کا ایک ٹکڑا بھی دکھایا۔ ان کے مطابق یہ اُس ایرانی ڈرون کا ایک حصہ ہے، جسے اسرائیلی فوج نے گزشتہ دنوں کے دوران مار گرایا تھا۔
نیتن یاہو کے بقول اسرائیل اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دے گا کہ ’’ایران شام میں دہشت گردی کے اپنے ایسے نئے مراکز قائم کرے، جو ہمارے لیے خطرہ ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ضرورت پڑنے پر اسرائیل ایرانی مفادات کے حامیوں کو ہی نہیں بلکہ ایران کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔
اس موقع پر انہوں نے ایک مرتبہ پھر ایرانی جوہری سرگرمیوں پر بھی تنقید کی، ’’جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے کے معاہدے کے باوجود بھی ایران ایک بڑا خطرہ ہے۔ جوہری ہتھیار سازی میں کامیابی کے بعد ایران کا جارحانہ طرز عمل قابوسے باہر ہو جائے گا۔ ‘‘
نیتن یاہو پہلی مرتبہ میونخ اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ اپنے خطاب کے دوران انہوں یورپی و امریکی نمائندوں اور سفارت کاروں سے کہا کہ ایران کا فوری تدارک بہت ضروری ہے۔ نیتن یاہو نے اس موقع پر مشرق وسطٰی میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے حوالے سے ایک نقشہ دکھاتے ہوئے کہا، ’’ یہ ہمارے خطے میں ہونے والی ایک خطرناک پیش رفت ہے۔‘‘
ایران میں یہودیوں کی مختصر تاریخ
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ کئی مؤرخین کا خیال ہے کہ شاہ بابل نبوکدنضر (بخت نصر) نے 598 قبل مسیح میں یروشلم فتح کیا تھا، جس کے بعد پہلی مرتبہ یہودی مذہب کے پیروکار ہجرت کر کے ایرانی سرزمین پر آباد ہوئے تھے۔
تصویر: gemeinfrei
539 قبل مسیح میں سائرس نے شاہ بابل کو شکست دی جس کے بعد بابل میں قید یہودی آزاد ہوئے، انہیں وطن واپس جانے کی بھی اجازت ملی اور سائرس نے انہیں اپنی بادشاہت یعنی ایرانی سلطنت میں آزادانہ طور پر اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
سلطنت ایران کے بادشاہ سائرس اعظم کو یہودیوں کی مقدس کتاب میں بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔ عہد نامہ قدیم میں سائرس کا تذکرہ موجود ہے۔
تصویر: gemeinfrei
موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں بسنے والے یہودیوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی گئی اور ہزارہا یہودی اسرائیل اور دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کر گئے۔ ایران کے سرکاری ذرائع کے مطابق اس ملک میں آباد یہودیوں کی موجودہ تعداد قریب دس ہزار بنتی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
ایران میں یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تاریخ کافی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ یہ تصویر قریب ایک صدی قبل ایران میں بسنے والے ایک یہودی جوڑے کی شادی کے موقع پر لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
قریب ایک سو سال قبل ایران کے ایک یہودی خاندان کے مردوں کی چائے پیتے ہوئے لی گئی ایک تصویر
تصویر: gemeinfrei
تہران کے رہنے والے ایک یہودی خاندان کی یہ تصویر بھی ایک صدی سے زائد عرصہ قبل لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
یہ تصویر تہران میں یہودیوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ کی ہے۔ ایرانی دارالحکومت میں یہودی عبادت گاہوں کی مجموعی تعداد بیس بنتی ہے۔
تصویر: DW/T. Tropper
دور حاضر کے ایران میں آباد یہودی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے شہریوں میں سے زیادہ تر کا تعلق یہودیت کے آرتھوڈوکس فرقے سے ہے۔