عراقی شیعہ رہنماؤں نے پپر کے روز ان کے ملک کو امریکا اور ایران کی ممکنہ جنگ میں زبردستی شامل کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ اتوار کو بغداد کے امریکی سفارت خانے کے قریب گرنے والے راکٹ کے بعد حالات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔
اشتہار
عراق کے معروف شیعہ مبلغ مقتدی الصدر نے کہا ہے کہ وہ اس بات کے خلاف ہیں کہ ایران اور امریکا کے درمیان کسی جنگ کو ہوا دی جائے۔ ان کے بقول یہ صورتحال عراق کو ایک جنگی میدان میں تبدیل کر دے گی، ’’ہمیں امن اور تعمیر چاہیے اور کوئی بھی فریق جو عراق کو جنگ کا میدان بنائے گا، وہ عراقی عوام کا دشمن ہو گا۔‘‘
عصائب اہل الحق نامی شیعہ تنظیم کے سربراہ قیس الخز علی نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’ایران اور امریکا کے مابین کوئی بھی جنگ عراق کو نقصان پہنچائے گی۔ عراقی سیاست، اقتصادیات اور سلامتی پر اثر پڑے گا۔‘‘ ایک اور شیعہ رہنما ہادی العامری نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر جنگ ہوئی تو وہ سب کو جلا کر رکھ دے گی۔
ابھی اتوار کے دن ایک راکٹ بغداد کے انتہائی محفوظ تصور کیے جانے والے علاقے ’گرین زون‘ میں آ کر گرا۔ یہاں پر امریکی سفارت خانہ واقع ہے۔ تاہم اس واقعے میں کوئی بھی جانی نقصان نہیں ہوا۔
راکٹ گرنے کے واقعے کے فوری بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کی،’’اگر ایران لڑنا چاہتا ہے، تو وہ ایران کا باقاعدہ خاتمہ ہو گا۔ امریکا کو دوبارہ نہیں دھمکانہ۔‘‘جواب میں ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے امریکی صدر کی ٹویٹ کو نسل پرستی سے تعبیر کیا۔
امریکا اور ایران کے مابین کشیدگی آج کل اپنے عروج پر ہے۔ امریکا نے مشرق وسطی میں اپنی عسکری موجودگی میں اضافہ کر دیا ہے جبکہ ساتھ ہی سعودی عرب نے اسی ماہ عرب ممالک کا ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔
عراق: امریکی جنگ کے دس سال بعد
تصویر: DW/K. Zurutuza
ڈراؤنا خواب جاری
گزشتہ دس برسوں میں تعمیر نو کے اربوں ڈالر کے منصوبوں کا اعلان کیا گیا لیکن ایک عام شہری کو آج بھی لوڈ شیڈنگ اور صاف پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ ملک کا بنیادی ڈھانچہ آج بھی کمزور ہے، بدعنوانی عروج پر ہے، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
ذاتی گھر کا خواب
جنگ اور عدم استحکام کی وجہ سے عراقی پناہ گزینوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اندورن ملک بے گھر ہونے والے عراقیوں کی تعداد 1.2 ملین بنتی ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بم دھماکے روز مرہ کا معمول
عراق کی مجموعی آبادی کا پانچواں حصہ دارالحکومت بغداد میں رہتا ہے۔ 33 ملین آبادی والے اس شہر میں آئے دن بم دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ شہریوں کو روزانہ درجنوں چیک پوائنٹس پر تلاشی کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
اموات اور تباہی
عراق میں ہلاکتوں کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنے والے دارے ’باڈی اکاؤنٹ‘ کے مطابق صرف گزشتہ برس ہلاک ہونے والے عراقیوں کی تعداد 4568 تھی۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
خواتین کی مشکلات
عراق میں صرف چالیس فیصد خواتین پڑھ لکھ سکتی ہیں۔ دس سالہ بد امنی کی وجہ سے بیواؤں کی تعداد تمام تر پرانے ریکارڈ توڑ چُکی ہے۔ مالی مشکلات کی وجہ سے لڑکیوں کی کم عمری میں ہی شادیوں کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بارودی سرنگیں
لوگوں کی زندگیوں کو اب بھی بارودی سرنگوں اور غیر تباہ شدہ دھماکہ خیز مواد سے خطرات لاحق ہیں۔ ان کی وجہ سے ملک کو آلودگی جیسے بڑے مسئلے کا بھی سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق، 2.7 ملین سے زائد لوگ آلودہ ماحول میں رہ رہے ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
یورنیم کے تابکار عناصر
طبی اعداد و شمار کے مطابق عراق میں کینسر اور لیوکیمیا جیسے موذی عارضوں کیں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ نومولود بچوں کی اموات کی شرح ہیروشیما اور ناگاساکی سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یورنیم کے تابکارعناصر ہیں۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
سکیورٹی خدشات
حکومتی حمایت یافتہ مختلف قبائلی رہنماؤں نے اپنے علاقوں میں امن برقرار رکھنے کے لیے سن 2005ء میں 'عراق کے بیٹوں' کے نام سے ایک نیم فوجی گروپ قائم کیا لیکن کم اسلحے اور حکومتی کمزوریوں کی وجہ سے یہ القاعدہ کا اہم ہدف بنا ہوا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
عرب بہار کا آغاز ؟
دسمبر 2012 ءکے بعد سے عراق کے سنی اکثریتی علاقوں کے ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس احتجاجی تحریک کو نام نہاد عرب بہار کا حصہ کہا جاتا ہے۔
تصویر: DW/K. Zurutuza
بہتر مستقبل کی لڑائی؟
سُنی ملیشیا گروپ ’’1920ء ریولوشن بریگیڈ‘ وہ مسلح گروپ ہے، جو موجودہ حکومت کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس گروپ کے چیف کمانڈر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جھوٹی جنگ مسلط کرنے والے ممالک کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ تعمیرنو میں مدد کریں۔‘‘