1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہم آزاد ملک میں نہیں رہ رہے ہیں: حامد میر

بینش جاوید
2 جولائی 2019

گزشتہ روز پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کا ٹی وی انٹرویو جیو نیوز پر نشر ہونے کے کچھ ہی دیر بعد چینل سے ہٹا دیا گیا۔ پروگرام کے میزبان حامد میر کا کہنا ہے کہ یہ سمجھنا بہت آسان ہے کہ یہ انٹرویو کس نے رکوایا۔

تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

حامد میر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سابق صدر کا یہ انٹرویوگزشتہ ہفتے پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔  یہاں آصف علی زرداری نے حامد میر سمیت دیگر صحافیوں سے بھی گفتگو کی تھی۔ حامد میر  کے بقول،'' ہم نے ان کے ساتھ کیے گئے  انٹرویو میں سے ایک خبر کو ہفتے کو ہی جیو نیوز پر نشر کیا اور پروگرام کا اشتہار اتوار کے روز دکھایا گیا جس پر پارلیمنٹ ہاؤس کی جانب سے کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔‘‘

حامد میر کے مطابق  ان کے سابق صدر کے ساتھ انٹرویو کا جائزہ پیر کو جیو نیوز کی ایڈیٹوریل کمیٹی نے بھی لیا   اور اس کمیٹی نے انٹرویو کے کچھ حصوں کو ایڈیٹ کر دیا، جس پر انہوں نے اعتراض کیا لیکن حامد میر کے اعتراضات کے باوجود کمیٹی نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا۔ لیکن یہ پروگرام نشر ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جیو نیوز کی نشریات سے ہٹا دیا گیا۔ حامد میر کے مطابق جیو نیوز کی انتظامیہ نے بتایا کہ وہ دباؤ میں ہے۔ واضح رہے کہ  آصف زرداری آج کل نیب کی تحویل میں ہیں اور اپنے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد وہ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک تھے۔

انٹرویو کو نشریات سے ہٹا دیے جانے کے فوری بعد حامد میر نے ٹویٹر پر لکھا،'' جنہوں نے آصف علی زرداری کا انٹرویو نشر ہونے سے رکوایا  ان میں اتنی جرات نہیں کہ کھل کر قبول کریں کہ یہ انٹرویو انہوں نے رکوایا۔‘‘ ایک اور ٹویٹ میں حامد میر نے لکھا،'' میں اپنے ناظرین سے معافی ہی مانگ سکتا ہوں کہ ایک انٹرویو شروع ہوا اور پھر  اسے روک  دیا گیا۔ میں جلد تفصیلات بتاؤں گا۔ لیکن یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ  یہ انٹرویو کس نے رکوایا۔ ہم آزاد ملک میں نہیں رہ رہے ہیں۔‘‘ 

ایک اور ٹویٹ میں حامد میر نے لکھا،'' کیا آصف علی زرداری احسان اللہ احسان سے بڑے مجرم ہیں جس نے سرکاری تحویل کے دوران انٹرویو دیا، میں نے آصف زرداری کا انٹرویو پارلیمنٹ ہاؤس سے کیا ہے۔‘‘

اس معاملے پر بلاول بھٹو نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا،'' سلیکٹیڈ حکومت صرف سلیکٹیڈ آوازیں سننا چاہتی ہے۔ صدر زرداری کے انٹرویو کو سنسر کر دیا گیا۔ ضیا کے پاکستان، مشرف کے پاکستان اور نئے پاکستان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ وہ آزاد ملک نہیں رہا جس کا وعدہ ہم سے قائد نے کیا تھا۔‘‘

میڈیا حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں نے بھی اس انٹرویو کے نشر نہ کیے جانے کے اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے اسے آزادی صحافت کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔

حامد میر نے ڈی ڈبلیو  کو اس بارے میں اپنا بیان دیتے ہوئے تحریر کیا ،'' میرے لیے یہ کچھ نیا نہیں ہے، میں ایسی صورتحال کا پہلے بھی کئی مرتبہ سامنا کر چکا ہوں۔ میرے خیال میں غیر اعلانیہ سنسر شپ پاکستان میں روز بروز بڑھ رہی ہے اور یہ جمہوریت اور  انسانی حقوق کے لیے خطرناک ہے۔‘‘

پاکستانی صحافی حامد میر کے لیے یورپی ایوارڈ

03:34

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں