’ہم اضطراب و بےچینی کے عہد میں زندہ ہیں‘: مؤرخ اسٹرن
30 جنوری 2016فرٹز رچرڈ اسٹرن امریکی شہر نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے تاحیات پروفیسر (پروفسر ایمریٹس) سن 1926 میں بریسلاؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ اُس وقت بریسلاؤ جرمنی کا شہر تھا اور آج کل یہ پولینڈ کا حصہ ہے۔ وہ ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سن 1938 میں اُن کا خاندان نازی حکومت کے دوران میں جرمنی سے مہاجرت کر گیا تھا۔
وہ خود کو امریکی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور وہ موجودہ امریکی صدر باراک اوباما کے معترف ہیں۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے امریکا کی یہ ایک بڑی کامیابی قرار دیا کہ اوباما کو دو مرتبہ صدر منتخب کیا اور موجودہ صورتحال سنجیدگی کی متقاضی ہے کیونکہ حالات خراب تر ہیں۔
پروفیسر اسٹرن نے جرمنی سمیت کئی یورپی ملکوں بشمول پولینڈ، ڈنمارک اور ہالینڈ میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی بتدریج مقبولیت کو اضطراب اور بےچینی کے دور کا حصہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے پولینڈ میں ایک اور انداز کی آمریت کے مضبوط ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اِس ملک میں آئرن کرٹن کے ختم ہونے کے بعد ملنے والی آزادی کا عہد کتنا کمزور رہا۔ اسٹرن کے مطابق اُن کے بچپن میں جمہوریت دم توڑ رہی تھی اور اب عمر کے اِس حصے میں وہ جمہوریت کو محفوظ رکھنے کے لیے جدوجہد دیکھ رہے ہیں اور یہ یقینی طور پر افسوسناک ہے۔
امریکی معاشرے میں تبدیلی کا ذمہ دار اسٹرن نے ذرائع ابلاغ کو ٹھہرایا ہے۔ اُن کے مطابق میڈیا پر وہ افراد چھائے ہوئے ہیں، جو مقصدی صحافت سے نابلد ہیں اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بقیہ دنیا کی طرح امریکی معاشرے کو تنگ دلی و تنگ ذہنی کے آزار کا سامنا ہے۔ اسٹرن کے خیال میں انہوں آزادی اور کھلے ذہن کی ترویج کی ہے اور اُن کے لیے موجودہ تنگ ذہنی کا رویہ غم زدہ کر دینے کے لیے کافی ہے اور یہ انسانی سوچ کا زوال ہے۔
اپنے انٹرویو میں عالمی شہرت کے مؤرخ کا کہنا ہے کہ ریپیلکن پارٹی کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ سمیت جتنے بھی امیدوار پارٹی الیکشن میں شریک ہیں وہ دانشمد نہیں ہیں اور اُن میں سے کوئی بھی منتخب ہوا تو امریکا کی تنہائی میں اضافہ ہونے کے علاوہ جرمن امریکی تعلقات متاثر ہوں گے۔ اسٹرن نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک ناقابلِ برداشت امیدوار قرار دیتے ہوئے انہیں غیراخلاقی انسان سے تعبیر کیا۔
امریکن جرمن تعلقات پر بات کرتے ہوئے فرٹز اسٹرن کا کہنا تھا کہ یہ پہلے ہی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے جاسوسی کے اسکینڈل سے متاثر ہو چکے ہیں لیکن اوباما اور میرکل کے رابطوں سے باہمی معاملات میں اعتماد کی فضا بحال ہو تو گئی ہے لیکن جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کے اسکینڈل سے پھر نقصان پہنچنے کا امکان ہے۔ روسی صدر ولادی میر پوٹن کے کریمیا کو روس میں ضم کرنے کے بعد ان کے ہٹلر کے ساتھ تقابل کو بھی اسٹرن بڑھا چڑھا کر بیان کرنے سے تعبیر کیا ہے۔ ان کے خیال میں یہ روس اور یورپ کی بدقسمتی ہے کہ ولادیمیر پوٹن روس کے صدر ہیں۔