ہم انسانی حقوق کے لیے لڑائی جاری رکھیں گے، افغان خاتون
21 جنوری 2023
انسانی حقوق کی سرگرم خاتون کارکن تمنا زریاب پریانی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی بات چیت میں کہا کہ افغانستان میں انسانی حقوق کی بحالی تک جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔
اشتہار
گزشتہ برس جنوری میں پچیس سالہ تمنا زریاب پریانی کو طالبان نے کابل سے گرفتار کیا۔ انہیں تین ہفتوں تک دوران قید شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے اپنی آپ بیتی سنائی۔
''مجھے باندھا گیا۔ میرے ہاتھوں اور پیروں کو باندھا گیا۔ انہوں نے مجھے ٹانگوں سے پکڑا اور جیل کے ایک گارڈ میرے پیر کے تلووں پر مارتا تھا۔ کبھی کبھی وہ میرے پیر پانی میں ڈال کر تاروں کی مدد سے بجلی کے جھٹکے تب تک دیتے تھے جب تک میں بے ہوش نہ ہو جاؤں۔ وہ میرے منہ پر پلاسٹک کا تھیلا چڑھا دیتے تھے اور صرف تب ہٹاتے تھے، جب میرا دم گھٹنے کو ہوتا تھا۔‘‘
جنوری دو ہزار بائیس کو تمنا کو کابل سے نصف شب کے وقت گرفتار کیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ تین ہفتوں تک انہیں شدید نوعیت کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی تین دیگر بہنوں کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس سے قبل تمنا نے طالبان کے خلاف ایک مظاہرہ منعقد کیا تھا۔
خواتین کے لیے نئے قوانین
طالبان نے تمنا پر عوامی طور برقع جلانے سمیت کئی نئے قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا۔ اگست دو ہزار اکیس میں کابل پر قبضہ کرنے والے طالبان نے خواتین کے سیاسی اور سماجی کردار کو محدود کر دیا تھا اور ان پر مسلسل پابندیوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ طالبان کے قانون کے مطابق تمام خواتین کو حجاب پہننے کا پابند بنایا گیا ہے۔ گزشتہ برس مئی میں پابندیوں میں اضافہ کرتے ہوئے خواتین کو برقع پہننے کا کہا گیا تھا۔ طالبان نے کابل سمیت مختلف افغان شہروں میں پوسٹر لگائے تھے، جن میں برقع نہ پہننے والی خواتین کو جانور قرار دیا گیا تھا۔
تمنا زریاب پریانی قانون پڑھ چکی ہیں اور طالبان کے قبضے سے قبل وہ ایک اخبار میں بطور صحافی کام کرتی تھیں۔ کابل میں بہت سی دیگر خواتین کی طرح انہوں نے طالبان کی نئی پابندیوں کو ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ ستمبر دو ہزار اکیس میںخواتین کے حقوق اور طالبان کے قبضے کے خلاف سڑکوں پر نکلنے والی سینکڑوں خواتین میں شامل تھیں۔ طالبان نے اس مظاہرے کو طاقت اور تشدد کے استعمال سے کچل دیا۔ تمنا ایسے میں فوری گرفتاری سے بچ گئیں تھیں، تاہم کچھ ہی عرصے بعد مسلح طالبان جنگجو ان کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے جہاں وہ اپنی تین بہنوں کے ساتھ مقیم تھیں۔
ایسے میں تمنا نے حاضر دماغی کا ثبوت دیا اور طالبان کے گھر میں داخلے کی ویڈیو فیس بک پر پوسٹ کر دی۔ یوں دنیا بھر میں لوگوں کو ان کی گرفتاری کا علم ہو گیا۔ ایسے میں ان کی جانب سے 'مدد‘ اور 'میری بہنوں کی زندگیاں بچا لیں‘ جیسے جملوں نے طالبان کی اس کارروائی سے پوری دنیا کو واقف کر دیا۔
اشتہار
قید اور تشدد
چاروں بہنوں زرمینہ، شفیقہ اور کرشمہ کو تمنا کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور ایک ہی جیل میں بند کیا گیا، مگر ان کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں تھا۔ انہیں بھی چھبیس دن تک شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
سترہ سالہ شفیقہ کے مطابق، ''میں نے اس سے قبل موت کا کبھی نہیں سوچا تھا۔ میں اس عمر میں تھی، جب ایسے خیال میرے لیے اجنبی تھے۔ مگر طالبان کی قید کے بعد میں موت کے علاوہ کچھ نہیں سوچ سکتی تھی۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برداری کی جانب سے شدید دباؤ کے بعد طالبان نے احتجاج میں شامل کافی تعداد میں خواتین کو زرضمانت کے عوض رہا کر دیا۔ رہائی کے بدلے ان خواتین سے ان کے گھر اور دیگر ملکیت کی چیزوں سے متعلق تمام تر تفصیلات طالبان نے لے لیں اور ان پر مظاہروں میں شرکت کرنے، کوئی سیاسی کردار ادا کرنے یا میڈیا سے گفتگو کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
تیرہ فروری کو تمنا اور ان کی بہنوں کو گھر جانے کی اجازت دی گئی جب کہ اب طالبان نے خواتین کو مکمل برقع کے ساتھ ساتھ کسی محرم کے بغیر گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کے علاوہلڑکیوں اور خواتین کو کالج یا جامعہ میں تعلیمحاصل کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
باہر سے مدد
تمنا اور ان کی بہنوں کی گرفتاری پر سوشل میڈیا پر خوب شور مچا۔ تمنا کی گرفتاری کی ویڈیو کی وجہ سےجرمنیکے افغانستان سے لوگوں کے انخلا کے پروگرام 'کابل لُفٹ بروکے‘، خواتین کے میگزین 'ایما‘ کی ایڈیٹوریل ٹیم اور جرمن ایجنسی برائے بین الاقوامی تعلقات جی آئی زیڈ متوجہ ہوئے۔
اکتوبر دو ہزار بائیس میں تمنا اور ان کے خاندان کے تمام دس افراد کو پاکستان کے راستے جرمنی پہنچا دیا گیا اور وہ تب سے جرمنی کی تیز رفتار زندگی میں خود کو جذب کرنے کی کوشش میں ہیں۔
طالبان نہ منظور: کابل ہو یا تہران
یہ تصاویر ایران میں جاری عوامی مظاہروں سے متعلق ہیں۔ ان مظاہروں نے کس طرح ایران کو جکڑا ہوا ہے اور کس طرح بین الاقوامی سطح پر مظاہرین کی حمایت جا رہی ہے۔
تصویر: Andrea Ronchini/NurPhoto/picture alliance
طالبان نہ منظور: کابل ہو یا تہران
اطالوی دارالحکومت روم کے رہائشیوں کا ایک گروپ ایرانی اور افغان خواتین کی حمایت میں جمع ہو کر یکجہتی کا اظہار کرتا ہوا۔ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کرنے پر طالبان کی مذمت اور فارسی اور دیگر کئی زبانوں میں’’عورت، زندگی، آزادی‘‘ کے نعرے ان کے احتجاجی پلے کارڈز پر لکھے تھے۔
تصویر: Andrea Ronchini/NurPhoto/picture alliance
جنرل قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر بینرز نذر آتش
ایرانی قدس فورس کے سابق کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی برسی سے قبل ان کی یاد میں لگائے گئے بینرز اپوزیشن کے پُرتشدد مظاہروں کا نشانہ بنے۔ حالیہ مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوتے ہی کئی بار جنرل سلیمانی کی تصاویر کو احتجاج کے طور پر جلایا گیا۔ انہیں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی کے ایک اہم ستون کی حیثیت حاصل تھی۔ تین جنوری دو ہزار بیس کو بغداد ایئرپورٹ کے قریب ایک امریکی ڈرون حملے میں وہ ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: privat
تہران میں فضائی آلودگی اور شہر کے میئر کی تقریر
تہران میں فضائی آلودگی کی سطح اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ صحت مند افراد کو بھی سانس اور دل کے مسائل لاحق ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ گھر میں بھی وہ کھڑکیاں کھول کر ہوا کی آلودگی محسوس کر سکتے ہیں۔ تہران کے میئر نے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے واقعہ کربلا سے لے کر حالیہ مظاہروں تک ہر چیز پر بات کی اور حکومت کے مخالفین کو ’مسخرہ‘ قرار دیا لیکن فضائی آلودگی کی وجہ سے عوام کی پریشانیوں کا ذکر نہیں کیا۔
تصویر: hamshahrionline
ایران میں مسیحیوں کے نئے سال کی خوشیاں ماند
گرچہ ایران میں اب بھی عوامی مظاہرے جاری ہیں اور حکومت نے اس کے خلاف جبر کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ تاہم ان حالات میں بھی ایرانی کے مسیحی باشندے نئے سال کو خوش آمدید کہنے چرچ گئے۔ تہران میں رہنے والے آرمینیائی باشندے ہولی سرکیس چرچ میں جمع ہوئے تاکہ وہاں پرامن طریقے سے اپنی تقریب کا انعقاد کر سکیں۔
تصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture alliance
زاہدان میں انصاف کی تلاش
زاہدان میں کئی ہفتوں سے ہر جمعہ کو احتجاجی ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ حکومتی فورسز کی کارروائیوں میں اس شہر میں اب تک درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں لیکن احتجاج بدستور جاری ہے۔صوبہ سیستان و بلوچستان میں بھی عوامی بغاوت کی حمایت کی جا رہی ہے۔
تصویر: UGC
ایران کی شطرنج کی نمبر ایک خاتون کھلاڑی کا اسپین کوچ کرنے کا ارادہ
اسلامی جمہوریہ کے پرچم کے ساتھ حجاب کے بغیر قازقستان کے شہر الماتی میں شطرنج کی عالمی چیمپئن شپ میں شرکت کرنے والی ایران میں شطرنج کی نمبر ون خاتون کھلاڑی سارہ خادم الشریعہ اسپین ہجرت کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ علی رضا فیروزجا کے بعد وہ ایران کی دوسری بہترین شطرنج کھلاڑی ہیں، جنہوں نے ملک کا نام روشن کیا ہے۔
تصویر: Lennart Ootes/FIDE/REUTERS
تہران کی آزاد یونیورسٹی میں بسیج کے دفتر میں آتش زدگی
ایران میں طلبا کی ایک خبر رساں ایجنسی کے مطابق، شمالی تہران میں واقع آزاد یونیورسٹی کے بسیج دفتر کو جمعرات 29 دسمبر کی صبح تقریباً 4 بجے ایک نامعلوم شخص نے آگ لگا دی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ یونیورسٹی میں داخل ہوا اور دفتر پر آتش گیر مادے کے ساتھ حملہ کیا۔ بظاہر آگ سے خواتین اور بسیج دفتر کے بیرونی حصے کو نقصان پہنچا۔ بسیج ایران کی پاسداران انقلاب کا ایک نیم فوجی دستہ ہے۔
تصویر: Hamshahri Online
’ اپنی قیمتی جان پر رحم کرو‘
فرانس میں مقیم ایک ایرانی طالب علم محمد مرادی کی خودکشی کے جواب میں حامد اسماعیلیون نے لکھا، ’’کاش میں آپ کے اس فیصلے سے پہلے آپ سے بات کر سکتا اور آپ کو بتاتا کہ ہم اُنہیں شکست دیں گے۔ آپ کی قیمتی اور پیاری زندگی کے ضیاع پر صد افسوس۔‘‘ متعدد ایرانیوں اور لیون شہر کے رہائشیوں نے محمد مرادی کی یاد میں شمعیں روشن کیں۔
تصویر: Maxime Jegat/MAXPPP/dpa/picture alliance
تہران کا بدلا ہوا چہرہ
یہ لندن، پیرس یا نیویارک کی گلی نہیں ہے، یہ کرسمس کے پہلے دن یعنی 25 دسمبر کو تہران کی مرزائی شیرازی اسٹریٹ ہے۔
تصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture alliance
خاموش احتجاج
شاید سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کے شعلے کچھ کم ہو گئے ہوں لیکن ایران کی گلیوں میں جو کچھ ان دنوں نظر آرہا ہے اسے احتجاج کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ خواتین سڑکوں پر حجاب کے بغیر اور پُرسکون انداز میں چل رہی ہیں، 40 سال سے جبری حجاب کا بوجھ اپنے سروں اور چہروں سے اتار کر۔
تصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture alliance
’ ہم ایک جیسے نہیں ہیں‘
اسلامی جمہوریہ ایران میں سزائے موت سنانے اور اس پر عمل درآمد کے خلاف مظاہرے مختلف شکلوں میں جاری ہیں۔ ’’آپ صبح 5 بجے اٹھتے اور نماز پڑھتے ہیں جبکہ میں اسی وقت پھانسی کے خوف میں مبتلا ہوتا ہوں۔ ہم ایک جیسے نہیں ہیں۔‘‘ اردبیلی یونیورسٹی میں یہ تازہ گریفٹی ہے جس پر محسن شکاری اور ماجدرضا رہنورد کے نام درج ہیں۔ ان دونوں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔
تصویر: UGC
جہالت اور سچائی
یہ مشترکہ تصویر سوشل نیٹ ورکس پر شائع کی گئی۔ دائیں طرف کی تصویر 13 نومبر کو ہونے والے حکومتی مظاہروں اور ’’یورپ کی سخت سردی کے لیے لوگوں کی امداد‘‘ کے لیے ایک کلیکشن پوائنٹ کے قیام سے متعلق ہے اور بائیں طرف کی خبر گیلان صوبے میں دفاتر اور بینکوں کی بندش سے متعلق ہے۔ ایک صارف نےاس تصویر کی تفصیل میں لکھا، ’’دو تصویروں کے درمیان کا فاصلہ ڈیڑھ ماہ کا نہیں، یہ جہالت اور سچائی کے درمیان کا فاصلہ ہے۔‘‘
تصویر: UGC
دار و رسن اور لہو رستی آنکھیں
ایرانی جشن یلدا سے کچھ دیرقبل ایرانی باشندوں نے دی ہیگ میں ڈچ پارلیمنٹ کے سامنے جمع ہو کر دکھایا کہ ایران میں مظاہرین کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ گلے میں رسیاں، ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے اور ایک طرف خون آلود آنکھیں اور دوسری طرف اسلامی جمہوریہ کا پھانسی کا تختہ اور اس کے جسم پر یورپی یونین کی قینچی۔ اس سے مظاہرین اشارہ دے رہے تھے کہ یورپ ایران میں سزائے موت اور مظاہرین کو کچلنے کےخلاف کچھ کرے۔
تصویر: Phil Nijhuis/ANP/picture alliance
یلدا کی چالیسویں رات
بہت سے ایرانییوں نے اس سال کے یلدا کو خوشی اور مسرت کے ساتھ نہیں بلکہ غم اور سوگ کے ساتھ منایا۔ اس سال بہت سے لوگوں کی ایک نہیں بلکہ کئی قیامت خیز اور طویل راتیں گزریں اور صبح خوف اور بے خوابی کے ساتھ طلوع ہوئی۔ اس سال کا یلدا آغا افضلی کے 40 ویں کے موقع پر آیا، جو ایک 19 سالہ نوجوان تھا۔ اسے احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا تھا اور وہ رہائی کے چند دن بعد اپنے گھر میں ہی انتقال کر گیا تھا۔
تصویر: Fatemeh Bahrami/AA/picture alliance
میکسیکو میں ایرانی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار
میکسیکو کے متعدد شہریوں نے ملکی دارالحکومت میکسیکو سٹی میں ایران کے سفارت خانے کے سامنے جمع ہو کر ایرانی عوام کی بغاوت کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے مظاہرین کی رہائی کا مطالبہ کیا اور خاص طور پر امیر نصر آزادانی کو سزائے موت دینے کی مذمت کی۔
تصویر: Gerardo Vieyra/NurPhoto/picture alliance
’یلدا احتجاج‘
اٹھائیس، انتیس اور تیس دسمبر کی ٹیلیفون کالز سوشل میڈیا پر شائع کی گئیں۔ ان کالز میں تمام لوگوں کو مظاہروں اور ہڑتالوں میں حصہ لینے کی دعوت گئی۔ 30 دسمبر کو مظاہرین کے احتجاج کا نقطہ عروج قرار دیتے ہوئے اسے یلدا رات سے تعبیر کیا گیا اور احتجاج کو ’یلدا احتجاج‘ کہا گیا۔ یلدا دراصل طویل ترین رات سے شروع ہونے والا تہوار مانا جاتا ہے۔
تصویر: UGC
ایرانیوں کی بغاوت کی حمایت جرمن دارالحکومت میں
ایران میں ملک گیر احتجاج اور سیاسی قیدیوں کی حمایت میں خواتین کے حقوق کے کارکنوں نے جرمن دارالحکومت میں مظاہرہ کیا۔ قید کیے گئے مظاہرین میں سے کچھ پر جنگ اور فساد پھیلانے کا الزام لگایا گیا ہے اور ایران ان لوگوں کو سزائے موت پر عمل درآمد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
تصویر: Paul Zinken/dpa/picture alliance
ایرانی عوام کی بغاوت اور بین الاقوامی برادری کی حمایت
کلکتہ میں فیڈریشن آف ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس آف انڈیا نے ایرانی خواتین کی احتجاجی تحریک کی حمایت کی۔ صنفی امتیاز اور پدرسری نظام پر تنقید کرتے ہوئے، بھارتی طلباء نے ایرانیوں کی ملک گیر تحریک کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اعلان کیا۔
ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد نے عوامی بغاوت کی حمایت کے لیے جرمن شہر فرینکفرٹ میں اسلامی جمہوریہ کے قونصل خانے کے سامنے ایک خیمے میں بھوک ہڑتال اور دھرنا شروع کر دیا ہے۔ ان میں سے کچھ 21 دنوں سے بھوک ہڑتال پر ہیں۔
تصویر: Boris Roessler/dpa/picture alliance
19 تصاویر1 | 19
جیل میں جانے اور پھر رہائی کو ایک برس گزر چکا ہے، مگر ابھی ان چاروں لڑکیوں کو ان بدترین تشدد کے تین ہفتوں کی وجہ خوف اور ڈراؤنے خوابوں کا سامنا ہے۔
ہزاروں اب بھی وہیں پھنسے ہیں
جرمنی میں اب تمنا اور ان کی بہنیں محفوظ ہیں، مگر ان کا کہنا ہے کہ ان جیسی ہزاروں خواتین اور مرد طالبان کے ظالمانہ شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جرمنی آمد کے بعد بھیطالبان کے کئی حامیوں کی جانب سے ان خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اب بھی ان خواتین کو تہمتوں حتیٰ کہ دھمکیوں کا بھی سامنا ہے۔
زرمینہ افغانستان میں حقوق کے لیے احتجاج کرنے والی خواتین کا ذکر کرتی ہیں، تو ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بہت سی ایسی لڑکیاں جنہیں دوران قید جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انہوں نے خودکشی کر لی، کیوں کہ انہیں خوف تھا کہ ''لوگوں کو اس کا علم ہوا، تو ان کے خاندان کی بدنامی ہو گی۔‘‘
تمنا کا کہنا ہے، ''ہم نے انصاف اور مساوات کی لڑائی لڑی ہے، ہم نے قربانیاں دیں ہیں، مگر ہم افغانستان میں اپنی ساتھیوں کو دیکھتی ہیں، تو یہاں بھی اسی کرب سے گزرتی ہیں۔‘‘