1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہم انڈونیشیا کو رواداری اور امن کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں:جرمن چانسلر

Kishwar Mustafa11 جولائی 2012

وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انڈونیشیا کے دورے کے دوران جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد کے اندر خواتین کے ایک بڑے ہجوم سے ملاقات کی۔

تصویر: picture-alliance/dpa

ہر کوئی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ مصافحہ کرنے کا خواہش مند نظر آ رہا تھا۔ انڈونیشیا کی مسجد استقلال میں خواتین کا ایک ہجوم تھا جو جرمن چانسلر کا مسکراتے ہوئے اور نہایت گرم جوشی سے استقبال کر رہا تھا۔ وفاقی جرمن چانسلر کا آبادی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست کا یہ پہلا سرکاری دورہ ہے۔ استقلال مسجد کے گنبد کے نیچے کھڑے ہو کر انگیلا میرکل اس شاندار اور جسیم عمارت کا بڑے شوق سے جائزہ لے رہی تھیں۔ جنوب مشرقی ایشیا کی اس سب سے بڑی مسجد میں ایک لاکھ بیس ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ میرکل کے دورے کا ایک خاص اور لازمی جُزو وہاں کی استقلال مسجد کا دورہ تھا وہ بھی ایک پادری کی بیٹی کی حیثیت سے۔ استقلال مسجد سے مختصر سے فاصلے پر قائم پروٹسٹنٹ ’ایمانوول چرچ‘ بھی میرکل کو نظر آرہا تھا۔ اس موقعے پر میرکل نے ایک بیان میں کہا،’ ہم انڈونیشیا کو رواداری اور امن کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں‘۔

جکارتہ دنیا کے جدید ترین شہروں میں سے ایکتصویر: picture-alliance/dpa

اسی قسم کا ایک بیان امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے 2009 ء میں انڈونیشیا کے دورے پر دیا تھا۔ کلنٹن کا کہنا تھا،’ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آیا اسلام، جمہوریت، جدیدیت اور خواتین کے حقوق کا احترام اکھٹا کہیں وجود رکھتا ہے تو آپ کو انڈونیشیا جانا چاہیے‘۔

1998ء میں انڈونیشیا میں سوہارتو کی آمر حکومت کے خاتمے کے بعد سے اس جنوب مشرقی ملک میں غیر معمولی اور بہت بڑی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ اب یہ ملک مضبوط اقتصادی ستونوں، تیز رفتار ترقی، خود اعتمادی اور پرامن مشترکہ زندگی جیسی بنیادوں پر کھڑا ہے۔ تاہم یہ سب کچھ اتنا آسان بھی نہیں۔ بہت سے انڈونیشی باشندے، صدر سوسیلو بامبانگ یودھویونو سے خوش نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یودھو یونو کو اقتدار برقرار رکھنے میں زیادہ اور صحیح فیصلے کرنے میں بہت کم دلچسپی ہے اور مذہبی امور میں موجودہ حکومت حقیقت سے بہت دور ہے۔

انڈونیشیا میں خواتین کے حقوق کے احترام کی میرکل نے تعریف کیتصویر: AP

گزشتہ برسوں میں انڈونیشیا میں مذہب کے نام پر تشدد کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ انڈونیشیا کے ’ستارا انسٹیٹیوٹ فار پیس اینڈ ڈیموکریسی‘ کے اندازوں کے مطابق مذہبی تشدد کے 216 واقعات 2010 ء میں جبکہ 244 ایسے واقعات 2011ء میں رونما ہوئے۔ اگرچہ انڈونیشی آئین مذہبی آزادی کے تحفظ کا ضامن ہے تاہم اکثر و بیشتر کلیساؤں کے بند کر دیے جانے، کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ یودھو یونو کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک کوئی 400 کلیسا بند کیے جا چکے ہیں۔ انڈونیشیا کی عدالتیں توہین مذہب کے خلاف موجود قوانین کا سہارا لے کر اکثر مسیحیوں، لادین باشندوں اور تحریک احمدیہ کے ارکان کو سزا کا مرتکب قرار دیتی ہے۔ انہی چیزوں کو بنیاد بنا کر ابھی چند ہفتوں قبل ایک نوجوان کو ڈھائی سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔

Griebeler Monika/Km/Mm

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں