ہم اپنے راستے پر جا رہے ہیں، یورپ اپنی راہ لے، ایردوآن
شمشیر حیدر6 مئی 2016
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے یورپی یونین کو کہا ہے کہ ترکی دہشت گردی کے خلاف بنائے گئے قوانین میں تبدیلی نہیں کرے گا۔ ترکی اور یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق اس قانون میں تبدیلی لائی جانا تھی۔
اشتہار
ترک صدر نے آج کی گئی اپنی ایک دھواں دھار تقریر میں معاہدے کے مطابق دہشت گردی کے خلاف قوانین میں تبدیلی نہ کرنے کا اعلان کیا۔ یونین کو مخاطب کرتے ہوئے ایردوآن کا کہنا تھا، ’’ہم اپنے راستے پر جا رہے ہیں، آپ اپنے راستے پر جائیں۔‘‘
ایردوآن کی تقریر یورپی یونین کی امیدوں کے لیے دھچکا ثابت ہو سکتی ہے۔ یونین امید کر رہی تھی کہ ترک وزیر اعظم احمد داؤد اولو کے مستعفی ہونے کے بعد بھی ترکی سے طے شدہ معاملات پہلے کی طرح جاری رہیں گے۔ اولوُ نے یونین اور ترکی کے مابین مہاجرین کے بحران کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور وہ یونین سے طے پانے والی شرائط پر کاربند بھی دکھائی دے رہے تھے۔
یورپی کمیشن نے بدھ کے روز ہی ترک شہریوں کے لیے یورپ میں ویزہ فری انٹری کی تجویز پیش کی تھی۔ اس کے بدلے ترکی کو یونین کی جانب سے پیش کردہ بہتر تجاویز پر عمل درآمد کرنا تھا جن میں ایک شق یہ بھی تھی کہ ترکی دہشت گردی کے خلاف بنائے گئے قوانین کو یورپی معیار کے مطابق بنائے گا۔
ایردوآن نے آج استنبول میں کی گئی اپنی ایک تقریر میں کہا، ’’ایسے وقت میں جب دہشت گرد تنظیمیں ترکی پر حملے کر رہی ہیں اور قوتیں ان کی براہ راست اور پس پردہ حمایت کر رہی ہیں، یورپی یونین ہمیں کہہ رہی ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف بنائے گئے قوانین میں تبدیلی کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ہمیں یورپ میں بغیر ویزہ سفر کی سہولت دیں گے۔ میں معذرت چاہتا ہوں، ہم اپنے راستے پر جا رہے ہیں، آپ اپنی راہ لیجیے۔ جو آپ کی بات مانتا ہے اسی سے منوا لیجیے۔‘‘
’ہم واپس ترکی نہیں جانا چاہتے‘
02:29
یونین کے ساتھ طے پانے والے معاہدے میں ترک عوام کے لیے سب سے اہم سہولت یورپ میں بغیر ویزا سفر ہی تصور کیا جا رہا تھا۔ دوسری جانب یورپ کو امید ہے کہ ترکی معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے ساحلوں سے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کو روکنے اور غیر قانونی مہاجرین کی ترکی واپسی جاری رکھے گا۔
ترک وزیر اعظم کے مستعفی ہونے سے ایردوآن کے اختیارات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ ایردوآن یورپ پر ماضی میں بھی شدید تنقید کرتے رہے ہیں اور یونین کے لیے احمد داؤد اولو کی نسبت ایردوآن سے مذاکرات کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
دوسری جانب انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ انقرہ حکام انسداد دہشت گردی کے قوانین حکومت پر تنقید کرنے والوں کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم ترکی کا اصرار ہے کہ کرد عسکریت پسندوں اور داعش کی جانب سے درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے یہ قوانین ضروری ہیں۔
ترکی کے شہر ازمیر میں امدادی گروپوں اور رضاکارانہ طور پر سرگرم کارکنوں کی مدد سے شامی مہاجرین نے اپنا کاروبارِ زندگی نئے سرے سے شروع کیا ہے۔ ترکی کا یہ بندرگاہی شہر شام کے پچاسی ہزار مہاجرین کا مسکن ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شامی مہاجرین کی بڑھتی کاروباری سرگرمیاں
ازمیر کا علاقہ بسمانے، انسانی اسمگلروں کی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے اور یہاں مہاجرین کی ملکیت اسٹورز اور ریستوران کی تعداد شامی مہاجرین کے آنے کے بعد سے دوگنی ہو گئی ہے۔ شامی مہاجرین زیادہ تر کاروبار اپنے ترک دوستوں کے نام پر کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بے روزگار اور بے یار و مددگار
مہاجرین کے لیے بلوں کی ادائیگی ایک مسئلہ ہے۔ زیادہ تر بے روزگار افراد کیفے میں بیٹھ کر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو تو صحت کی بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک جرمن لڑکی لیا ولمسن ان افراد کو مفت یہ سہولت مہیا کر رہی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
محدود جگہ اور مسائل
لیا ولمسن کو اس کام میں ایک مترجم بھی مدد فراہم کر رہا ہے۔ ولمسن بسمانے میں مہاجرین کے گھروں میں جاتی ہے۔ اس تصویر میں وہ دو خواتین سے بات کر رہی ہے ، جن کے بچے نظام تنفس کے مسائل کا سامنا ہے۔ ولمسن کے بقول چھوٹے سے کمروں میں گنجائش سے زیادہ افراد کی موجودگی کی وجہ سے کمروں میں نمی بڑھ جاتی ہے اور جس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بچے اور روزگار
اس علاقے میں لائف جیکٹس عام دکانوں پر فروخت ہو رہی ہیں اور بچے بھی یہیں کھیلتے ہیں۔ ازمیر میں موجود مہاجر بچے باقاعدگی سے اسکول نہیں جاتے بلکہ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح وہ کرایہ اور بلوں کی ادائیگیوں میں اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مہاجر کیمپوں کا قیام
ییلسن یانک یونین کے سابقہ ملازم ہیں۔ وہ آج کل ایک ایسی عمارت میں تزئین و آرائش کا کام کر رہے ہیں، جسے مکمل ہونے کے بعد مہاجرین کا ایک مرکز بنا دیا جائے گا۔ ییلسن یانک کے بقول’’ مجھے مہاجرین کی مدد کرنا اچھا لگتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
خود انحصاری
اطالوی نژاد ایک برطانوی رضاکار کرس ڈولنگ بھی ییلسن یانک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مہاجرین کی مدد کرنا بہت ضروری ہے۔’’ ہم نہیں چاہتے لوگ صرف امداد پر ہی انحصار کریں۔ ہم انہیں معاشرے میں ضم کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ لوگ کام کر سکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں‘‘۔
تصویر: DW/D. Cupolo
جگہ کی کمی
یورپی یونین کے تعاون سے چلنے والی امدادی تنظیم ’میرسی کورپس‘ نے ازمیر میں اپنا ایک دفتر کھولا ہے۔ یہاں پر مستحق مہاجر خاندانوں میں پرچیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور انہیں مشاورت فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ تنظیم بہت کم کرائے پر گھر بھی فراہم کرتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسمگلروں کا اڈہ
امدادی کارکنوں اور تنظیموں کی مشترکہ کوششوں کے باوجود زیادہ تر مہاجرین ازمیر انسانی اسمگلروں کی تلاش میں آتے ہیں۔ انتظامیہ اسمگلروں اور شہریوں کے مابین رابطوں کو روک نہیں پا رہی۔
تصویر: DW/D. Cupolo
محفوظ راستہ
یہ یونانی جزیرہ کی اوس کی تصویر ہے۔ ترک علاقے سیسما سے یہ یونانی ساحل زیادہ دور نہیں ہے۔ یورپ جانے کے خواہشمند مہاجرین زیادہ تر بحیرہ ایجیئن کو یہیں سے پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔