ہم جنس شادیوں کے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ
جاوید اختر، نئی دہلی
17 اکتوبر 2023
عدالت نے ہم جنس شادیوں کے متعلق آج ایک اہم فیصلے میں کہا کہ اسے قانونی طور پر جائز قرار دینا اس کا نہیں بلکہ پارلیمان کا کام ہے۔ ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بی جے پی اور مسلم تنظیموں نے ہم جنس شادیوں کی مخالفت کی تھی۔
اشتہار
پانچ رکنی آئینی بنچ کی صدارت کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے تاہم یہ بھی کہا کہ جو ازدواجی حقوق ہیٹرو سیکسوول (جنس مخالف) جوڑوں کو حاصل ہیں وہی حقوق ہم جنس پرست جوڑوں کو بھی ملنے چاہیئں ورنہ ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ مرکزی اور تمام ریاستی حکومتوں کو اس امر کو یقینی بنانا چاہئے کہ ہم جنس افراد اور خواجہ سراوں کے ساتھ کسی بھی طرح کی تفریق نہ ہو۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
عدالت نے کیا کہا؟
ہم جنسی کو قانونی طور پر جائز قرار دینے کے بعد سے ہی بھارت میں ہم جنس شادیوں کو بھی قانونی جواز فراہم کرنے کی مہم زورو شور سے جاری ہے۔ لیکن ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے علاوہ متعدد ہندو اور مسلم مذہبی تنظیمیں اس کے خلاف ہیں۔ اس معاملے پر اس سال اپریل اور مئی میں فریقین نے اپنے اپنے دلائل پیش کیے، جن پر سپریم کورٹ نے آج اپنا فیصلہ سنایا۔
سپریم کورٹ نے سن 2018 میں ہم جنس سیکس کو غیر قانونی قرار دینے والے نوآبادیاتی دور کے قانون کو ختم کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ ہم جنس شادیوں کو قانونی جواز فراہم نہیں کرسکتا اور اس سلسلے میں قانون سازی پارلیمان کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
چیف جسٹس چندر چوڑ کا کہنا تھا کہ "اس بات پر ایک حد تک اتفاق اور عدم اتفاق ہے کہ ہم ہم جنس شادیوں کے حوالے سے کہاں تک جاسکتے ہیں۔"
جسٹس چندر چوڑ کے ساتھ دو دیگر ججوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ عدالت ہم جنس شادیوں کو قانونی جواز فراہم نہیں کرسکتی۔
اس وقت ایشیا میں صرف تائیوان اور نیپال ایسے دو ممالک ہیں جہاں ہم جنس شادیوں کی اجازت ہے۔
ہم جنس کے حقوق کی حفاظت کی جائے
چیف جسٹس نے کہا کہ شادی کے حق میں ترمیم کرنے کا اختیار قانون سازیہ کے پاس ہے لیکن ایل جی بی ٹی کیو پلس لوگوں کو اپنا "پارٹنر" منتخب کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا حق ہے اور حکومت کو انہیں حاصل حقوق کی حفاظت کرنی چاہئے تاکہ یہ 'جوڑے' کسی پریشانی کے بغیر ساتھ رہ سکیں۔
جسٹس چندر چوڑ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ہم جنس پرستی صرف شہری اشرافیہ یا ایلیٹ کا معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ ان لوگوں کا بھی معاملہ ہے جو ملک کے الگ الگ شہروں اور گاوں میں رہتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا "ایک انگلش بولنے اور کارپوریٹ آفس میں کام کرنے والا بھی ہم جنس ہو سکتا ہے اور گھریلو کام کاج کرنے والی خاتون بھی ہم جنس ہو سکتی ہے۔"
بھارت میں کیا اب ہم جنس پرستوں کی زندگی آسان ہو گی؟
02:04
بی جے پی نے کیوں مخالفت کی
وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہم جنس شادیوں کو قانونی قرار دینے والی درخواستوں کی مخالفت کی تھی۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ ایک "شہری اشرافیہ" خیال ہے اور اس مسئلے پر بحث کرنے نیز قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ ہی مناسب پلیٹ فارم ہے۔
بی جے پی کا کہنا ہے کہ بھارتی سماج میں میاں بیوی اور بچے پر مشتمل خاندان کو ہی خاندان سمجھا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ بھارتی سماج میں اب بھی روایتی قدروں کا غلبہ ہے البتہ ایل جی بی ی کیو کے حقوق بھی دھیرے دھیرے تسلیم کیے جارہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا جو ہم جنس جوڑوں کو درپیش عملی مسائل، مثلا ً راشن کارڈ کے حصول، پنشن، گریچویٹی اور وراثت کے مسائل کو حل کرنے کے متعلق اپنی تجاویز دے گی۔
ایسے ممالک جہاں ہم جنس پسند شادی کر سکتے ہیں
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، جہاں ہم جنس پسند قانونی طور پر شادی کر سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اب تک کن ممالک میں ہم جنس پسندوں کی شادیوں کو ریاستی تحفظ فراہم کیا جا چکا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Yeh
ہالینڈ، سن دو ہزار ایک
ہالینڈ دنیا کا پہلا ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت دی گئی۔ ڈچ پارلیمان نے اس تناظر میں سن دو ہزار میں ایک قانون کی منظوری دی تھی۔ یکم اپریل سن دو ہزار ایک کو دنیا میں پہلی مرتبہ دو مردوں کے مابین شادی کی قانونی تقریب منعقد ہوئی۔ یہ شادی تھی اس وقت ایمسٹرڈیم کے میئر جاب کوہن کی۔ اب ہالینڈ میں ہم جنس جوڑے بچوں کو بھی گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ANP/M. Antonisse
بیلجیم، سن دو ہزار تین
ہالینڈ کا ہمسایہ ملک بیلجیم دنیا کا دوسرا ملک تھا، جہاں پارلیمان نے ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی اجازت دی گئی۔ سن دو ہزار تین میں ملکی پارلیمان نے قانون منظور کیا کہ خواتین یا مرد اگر آپس میں شادی کرتے ہیں تو انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے، جو شادی شدہ جوڑوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس قانون کے منظور ہونے کے تین برس بعد ہم جنس جوڑوں کو بچے گود لینے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/J. Warnand
ارجنٹائن، سن دو ہزار دس
ارجنٹائن لاطینی امریکا کا پہلا جبکہ عالمی سطح پر دسواں ملک تھا، جہاں ہم جنسوں کے مابین شادی کو ریاستی تحفظ فراہم کیا گیا۔ جولائی سن دو ہزار دس میں ملکی سینیٹ میں یہ قانون 33 ووٹوں کے ساتھ منظور ہوا جبکہ 27 ووٹ اس کے خلاف دیے گئے۔ اسی برس پرتگال اور آئس لینڈ نے بھی ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی بنانے کے حوالے سے قوانین منظور کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/L. La Valle
ڈنمارک، سن دو ہزار بارہ
ڈنمارک کی پارلیمان نے جون سن دو ہزار بارہ میں بڑی اکثریت کے ساتھ ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی۔ اسکینڈے نیویا کا یہ چھوٹا سا ملک سن 1989 میں اس وقت خبروں کی زینت بنا تھا، جب وہاں ہم جنس جوڑوں کو سول پارٹنرشپ کے حقوق دیے گئے تھے۔ ڈنمارک میں سن دو ہزار نو سے ہم جنس پسندوں کو اجازت ہے کہ وہ بچے گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/CITYPRESS 24/H. Lundquist
نیوزی لینڈ، سن دو ہزار تیرہ
نیوزی لینڈ میں ہم جنس پسند مردوں اور خواتین کو شادی کی اجازت سن دو ہزار تیرہ میں ملی۔ یہ ایشیا پیسفک کا پہلا جبکہ دنیا کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کو شادی کی اجازت دی گئی۔ نیوزی لینڈ میں انیس اگست کو ہم جنس پسند خواتین لینلی بنڈال اور ایلی وانیک کی شادی ہوئی۔ فرانس نے بھی سن دو ہزار تیرہ میں ہم جنس پسندوں کو شادی کی قانونی اجازت دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Air New Zealand
آئر لینڈ، سن دو ہزار پندرہ
آئرلینڈ ایسا پہلا ملک ہے، جہاں ایک ریفرنڈم کے ذریعے ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت کا قانون منظور ہوا۔ اس ریفرنڈم میں دو تہائی سے زائد اکثریت نے ہم جنسوں کے مابین شادی کی حمایت کی تو تب ہزاروں افراد نے دارالحکومت ڈبلن کی سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Crawley
امریکا، سن دو ہزار پندرہ
امریکا میں چھبیس جون سن دو ہزار پندرہ کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا کہ ملکی آئین ہم جنسوں کی مابین شادیوں کی قانونی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اسی فیصلے کی بدولت امریکا بھر میں ہم جنس جوڑوں کے مابین شادی کی راہ ہموار ہوئی۔ اس سے قبل بارہ برس تک امریکی سپریم کورٹ نے ہم جنس پسند افراد کے مابین شادی کو غیر آئینی قرار دیے رکھا تھا۔
جرمنی یورپ کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی گئی۔ تیس جون کو بنڈس ٹاگ میں 226 کے مقابلے میں یہ قانون 393 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ اگرچہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس قانون کے خلاف ووٹ دیا تاہم انہوں نے اس کے منظور کیے جانے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/O. Messinger
آسٹریلیا، سن دو ہزار سترہ۔ اٹھارہ
آسٹریلوی میں ایک پوسٹل سروے کرایا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اس ملک کی اکثریت ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی حمایت کرتی ہے تو ملکی پارلیمان نے دسمبر 2017 میں اس سلسلے میں ایک قانون منظور کر لیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Hamilton
تائیوان، سن دو ہزار انیس
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک ہے، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ سترہ مئی سن دو ہزار سترہ کو ملکی پارلیمان نے اس حوالے سے ایک تاریخی مسودہ قانون منظور کیا۔ اس قانون کی منظوری پر صدر نے کہا کہ ’حقیقی برابری کی طرف یہ ایک بڑا قدم ہے‘۔