ہم جنس نوبیاہتا جوڑے ’خیروبرکت‘ کی دعا لے سکتے ہیں، ویٹی کن
18 دسمبر 2023
ویٹی کن نے ایک تاریخی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم جنس نو بیاہتا جوڑے چرچ میں آ کر پادری سے 'خیر و برکت‘ کی دعا لے سکتے ہیں۔ کیتھولک مسیحی چرچ ہم جنس پسندوں کی شادی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔
اشتہار
کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے ہم جنس نو بیاہتا جوڑوں کو چرچ میں آکر پادری سے 'خیرو برکت اور نیک خواہشات‘ کی دعا لینے کے حکم نامے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اب ایسا کوئی بھی جوڑا شادی کے بعد 'برکات‘ کی دعا لینے کی خاطر چرچ میں کسی پادری سے درخواست کر سکے گا۔
تاہم اس حکم نامے میں واضح کیا گیا ہے کہ اس بات کو کیتھولک فریضہ تصور نہ کیا جائے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہم جنس پسندوں کی شادی پر انہیں دعا دینے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کیتھولک چرچ ایسی شادیوں یا ایسی کسی سول یونین کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
کیتھولک چرچ ہم جنس پسندوں کی شادی کو 'گناہ ہی تصور‘ کرتا ہے اور اسی لیے اس کو تسلیم بھی نہیں کرتا ہے۔ پوپ فرانسس البتہ ذاتی طور پر اس حوالے سے نرم رویہ رکھتے ہیں اور ایسے افراد کے مابین شادی کو جرم قرار نہیں دیتے۔ انہوں نے اس حکم نامے کے جاری ہونے سے قبل بھی کہا تھا کہ 'خیرو برکت کے لیے کسی بھی دعا کی درخواست کو مسترد‘ نہیں کیا جانا چاہیے۔
پوپ فرانسس البتہ شادی کے بارے میں چرچ کے نظریے کی حمایت کرتے ہیں، جس کے مطابق صرف ایک مرد اور ایک عورت کے مابین ہی مستحکم اور ناقابل تحلیل ازدواجی رشتہ قائم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے سن 2021 میں ایک فرمان جاری کرتے ہوئے پادریوں کو ہم جنس پرستوں کی شادیوں کی دعائیہ تقریب میں شرکت کرنے سے بھی روکا تھا۔
اس سے قبل چرچ آف انگلینڈ نے ہم جنس پرست جوڑوں کی قانونی شادی کے بعد دعائیہ تقریب کرانے کی اجازت دی تھی۔ چرچ آف انگلینڈ نے رواں سال فروری میں ہم جنس شادیوں پر پابندی برقرار رکھنے کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے پادریوں کو اس بات کی اجازت دی تھی کہ وہ ہم جنس شادی شدہ جوڑوں اور ایک ساتھ رہنے والے ہم جنس جوڑوں کو اپنی دعاؤں اور نیک خواہشات سے نواز سکتے ہیں۔
ع ب/ ش ر (خبر رساں ادارے)
ایسے ممالک جہاں ہم جنس پسند شادی کر سکتے ہیں
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، جہاں ہم جنس پسند قانونی طور پر شادی کر سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اب تک کن ممالک میں ہم جنس پسندوں کی شادیوں کو ریاستی تحفظ فراہم کیا جا چکا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Yeh
ہالینڈ، سن دو ہزار ایک
ہالینڈ دنیا کا پہلا ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت دی گئی۔ ڈچ پارلیمان نے اس تناظر میں سن دو ہزار میں ایک قانون کی منظوری دی تھی۔ یکم اپریل سن دو ہزار ایک کو دنیا میں پہلی مرتبہ دو مردوں کے مابین شادی کی قانونی تقریب منعقد ہوئی۔ یہ شادی تھی اس وقت ایمسٹرڈیم کے میئر جاب کوہن کی۔ اب ہالینڈ میں ہم جنس جوڑے بچوں کو بھی گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ANP/M. Antonisse
بیلجیم، سن دو ہزار تین
ہالینڈ کا ہمسایہ ملک بیلجیم دنیا کا دوسرا ملک تھا، جہاں پارلیمان نے ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی اجازت دی گئی۔ سن دو ہزار تین میں ملکی پارلیمان نے قانون منظور کیا کہ خواتین یا مرد اگر آپس میں شادی کرتے ہیں تو انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے، جو شادی شدہ جوڑوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس قانون کے منظور ہونے کے تین برس بعد ہم جنس جوڑوں کو بچے گود لینے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/J. Warnand
ارجنٹائن، سن دو ہزار دس
ارجنٹائن لاطینی امریکا کا پہلا جبکہ عالمی سطح پر دسواں ملک تھا، جہاں ہم جنسوں کے مابین شادی کو ریاستی تحفظ فراہم کیا گیا۔ جولائی سن دو ہزار دس میں ملکی سینیٹ میں یہ قانون 33 ووٹوں کے ساتھ منظور ہوا جبکہ 27 ووٹ اس کے خلاف دیے گئے۔ اسی برس پرتگال اور آئس لینڈ نے بھی ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی بنانے کے حوالے سے قوانین منظور کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/L. La Valle
ڈنمارک، سن دو ہزار بارہ
ڈنمارک کی پارلیمان نے جون سن دو ہزار بارہ میں بڑی اکثریت کے ساتھ ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی۔ اسکینڈے نیویا کا یہ چھوٹا سا ملک سن 1989 میں اس وقت خبروں کی زینت بنا تھا، جب وہاں ہم جنس جوڑوں کو سول پارٹنرشپ کے حقوق دیے گئے تھے۔ ڈنمارک میں سن دو ہزار نو سے ہم جنس پسندوں کو اجازت ہے کہ وہ بچے گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/CITYPRESS 24/H. Lundquist
نیوزی لینڈ، سن دو ہزار تیرہ
نیوزی لینڈ میں ہم جنس پسند مردوں اور خواتین کو شادی کی اجازت سن دو ہزار تیرہ میں ملی۔ یہ ایشیا پیسفک کا پہلا جبکہ دنیا کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کو شادی کی اجازت دی گئی۔ نیوزی لینڈ میں انیس اگست کو ہم جنس پسند خواتین لینلی بنڈال اور ایلی وانیک کی شادی ہوئی۔ فرانس نے بھی سن دو ہزار تیرہ میں ہم جنس پسندوں کو شادی کی قانونی اجازت دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Air New Zealand
آئر لینڈ، سن دو ہزار پندرہ
آئرلینڈ ایسا پہلا ملک ہے، جہاں ایک ریفرنڈم کے ذریعے ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت کا قانون منظور ہوا۔ اس ریفرنڈم میں دو تہائی سے زائد اکثریت نے ہم جنسوں کے مابین شادی کی حمایت کی تو تب ہزاروں افراد نے دارالحکومت ڈبلن کی سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Crawley
امریکا، سن دو ہزار پندرہ
امریکا میں چھبیس جون سن دو ہزار پندرہ کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا کہ ملکی آئین ہم جنسوں کی مابین شادیوں کی قانونی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اسی فیصلے کی بدولت امریکا بھر میں ہم جنس جوڑوں کے مابین شادی کی راہ ہموار ہوئی۔ اس سے قبل بارہ برس تک امریکی سپریم کورٹ نے ہم جنس پسند افراد کے مابین شادی کو غیر آئینی قرار دیے رکھا تھا۔
جرمنی یورپ کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی گئی۔ تیس جون کو بنڈس ٹاگ میں 226 کے مقابلے میں یہ قانون 393 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ اگرچہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس قانون کے خلاف ووٹ دیا تاہم انہوں نے اس کے منظور کیے جانے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/O. Messinger
آسٹریلیا، سن دو ہزار سترہ۔ اٹھارہ
آسٹریلوی میں ایک پوسٹل سروے کرایا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اس ملک کی اکثریت ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی حمایت کرتی ہے تو ملکی پارلیمان نے دسمبر 2017 میں اس سلسلے میں ایک قانون منظور کر لیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Hamilton
تائیوان، سن دو ہزار انیس
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک ہے، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ سترہ مئی سن دو ہزار سترہ کو ملکی پارلیمان نے اس حوالے سے ایک تاریخی مسودہ قانون منظور کیا۔ اس قانون کی منظوری پر صدر نے کہا کہ ’حقیقی برابری کی طرف یہ ایک بڑا قدم ہے‘۔