ہم جنس پرستوں کو بھی خاندان بنانے کا حق ہے:پوپ فرانسس
22 اکتوبر 2020
پوپ فرانسس نے ہم جنس پرستوں کے لیے سماجی و قانونی تحفظ فراہم کرنے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ ہم جنس پرست بھی’خدا کے بندے ہیں اور انہیں بھی خاندان بنانے کا حق ہے۔‘
اشتہار
کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا بننے کے بعد پوپ فرانسس نے ہم جنس پرستوں کے لیے سماجی تحفظ کے قوانین بنانے کے حق میں پہلی مرتبہ اتنا کھل کر بات کی ہے اور وہ اس متنازع معاملے کی حمایت کرنے والے پہلے پوپ ہیں۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار ایک دستاویزی فلم میں کی ہے، جو بدھ کے روز دکھائی گئی۔
'فرانسسکو‘ نامی اس دستاویزی فلم میں کیتھولک عیسائیوں کے مذہبی پیشوا نے ایک ایسا 'سماجی تحفظ کا قانون‘ بنانے کی اپیل کی جس سے ہم جنس پرست افراد بھی اپنا خاندان بناسکیں۔
روم فلم فیسٹیول میں دکھائی گئی اس فلم میں پوپ فرانسس نے ہم جنس پرستوں کے حقوق کی کھل کر حمایت کی ہے۔ پوپ فرانسس کا کہنا تھا کہ ”وہ بھی خدا کے بندے ہیں اور انہیں بھی اپنا خاندان بنانے کا حق ہے۔" ان کا مزید کہنا تھا”کسی کو بھی خاندان سے باہر نہیں کیا جانا چاہیے یا کسی کی زندگی کو مصیبت میں نہیں ڈالنی چاہیے۔"
اشتہار
'میں اس کے حق میں ہوں‘
پوپ فرانسس نے، اس سے قبل بھی جب وہ بیونس آئرس کے آرک بشپ تھے، ہم جنس پرستوں کے لیے سماجی تحفظ کی بات کہی تھی۔ انہوں نے اس طرح کے رشتے کو ہم جنس پرستوں کی شادی کے متبادل قراردیا تھا۔ البتہ وہ ہم جنس جوڑوں کے درمیان شادی کے مخالف ہیں اور ماضی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ شادی صرف مرد اور عورت کے درمیان ہی ہونی چاہیے۔
جب پاپائے روم نے سوڈانی رہنماؤں کے پاؤں چومے
00:54
لیکن پاپائیت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب 83 سالہ پوپ فرانسس نے عوامی سطح پر اتنے واضح انداز میں ہم جنس پرستوں کے لیے سماجی تحفظ کی بات کہی ہے۔
انہوں نے کہا”ہمیں سماجی تحفظ کا ایک قانون بنانا چاہیے۔ جس کے تحت ان کا قانونی تحفظ ہوسکے۔ میں اس کے حق میں ہوں۔"
خیال رہے کہ ماضی میں کیتھولک چرچ ہم جنس پرستوں کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا تھا، انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، حتی کہ ایسے افراد کو چرچ سے باہر بھی کردیا جاتا تھا۔ وہ ہم جنس پرستی کو گناہ قرار دیتا تھا لیکن اب اس کے موقف میں تبدیلی آئی ہے اور وہ ہم جنس پرستی کو گناہ نہیں سمجھتا ہے۔
2013 میں کیتھولک عیسائیوں کے پیشوا کا عہدہ سنبھالنے والے پوپ فرانسس ہم جنس پرستوں کے حق میں متعدد بیانات دے چکے ہیں اور وہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کے خلاف ہیں۔ لیکن وہ ہم جنس جوڑوں کے درمیان شادی کے اب بھی مخالف ہیں۔
ایسے ممالک جہاں ہم جنس پسند شادی کر سکتے ہیں
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، جہاں ہم جنس پسند قانونی طور پر شادی کر سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اب تک کن ممالک میں ہم جنس پسندوں کی شادیوں کو ریاستی تحفظ فراہم کیا جا چکا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Yeh
ہالینڈ، سن دو ہزار ایک
ہالینڈ دنیا کا پہلا ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت دی گئی۔ ڈچ پارلیمان نے اس تناظر میں سن دو ہزار میں ایک قانون کی منظوری دی تھی۔ یکم اپریل سن دو ہزار ایک کو دنیا میں پہلی مرتبہ دو مردوں کے مابین شادی کی قانونی تقریب منعقد ہوئی۔ یہ شادی تھی اس وقت ایمسٹرڈیم کے میئر جاب کوہن کی۔ اب ہالینڈ میں ہم جنس جوڑے بچوں کو بھی گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ANP/M. Antonisse
بیلجیم، سن دو ہزار تین
ہالینڈ کا ہمسایہ ملک بیلجیم دنیا کا دوسرا ملک تھا، جہاں پارلیمان نے ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی اجازت دی گئی۔ سن دو ہزار تین میں ملکی پارلیمان نے قانون منظور کیا کہ خواتین یا مرد اگر آپس میں شادی کرتے ہیں تو انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے، جو شادی شدہ جوڑوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس قانون کے منظور ہونے کے تین برس بعد ہم جنس جوڑوں کو بچے گود لینے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/J. Warnand
ارجنٹائن، سن دو ہزار دس
ارجنٹائن لاطینی امریکا کا پہلا جبکہ عالمی سطح پر دسواں ملک تھا، جہاں ہم جنسوں کے مابین شادی کو ریاستی تحفظ فراہم کیا گیا۔ جولائی سن دو ہزار دس میں ملکی سینیٹ میں یہ قانون 33 ووٹوں کے ساتھ منظور ہوا جبکہ 27 ووٹ اس کے خلاف دیے گئے۔ اسی برس پرتگال اور آئس لینڈ نے بھی ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی بنانے کے حوالے سے قوانین منظور کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/L. La Valle
ڈنمارک، سن دو ہزار بارہ
ڈنمارک کی پارلیمان نے جون سن دو ہزار بارہ میں بڑی اکثریت کے ساتھ ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی۔ اسکینڈے نیویا کا یہ چھوٹا سا ملک سن 1989 میں اس وقت خبروں کی زینت بنا تھا، جب وہاں ہم جنس جوڑوں کو سول پارٹنرشپ کے حقوق دیے گئے تھے۔ ڈنمارک میں سن دو ہزار نو سے ہم جنس پسندوں کو اجازت ہے کہ وہ بچے گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/CITYPRESS 24/H. Lundquist
نیوزی لینڈ، سن دو ہزار تیرہ
نیوزی لینڈ میں ہم جنس پسند مردوں اور خواتین کو شادی کی اجازت سن دو ہزار تیرہ میں ملی۔ یہ ایشیا پیسفک کا پہلا جبکہ دنیا کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کو شادی کی اجازت دی گئی۔ نیوزی لینڈ میں انیس اگست کو ہم جنس پسند خواتین لینلی بنڈال اور ایلی وانیک کی شادی ہوئی۔ فرانس نے بھی سن دو ہزار تیرہ میں ہم جنس پسندوں کو شادی کی قانونی اجازت دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Air New Zealand
آئر لینڈ، سن دو ہزار پندرہ
آئرلینڈ ایسا پہلا ملک ہے، جہاں ایک ریفرنڈم کے ذریعے ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت کا قانون منظور ہوا۔ اس ریفرنڈم میں دو تہائی سے زائد اکثریت نے ہم جنسوں کے مابین شادی کی حمایت کی تو تب ہزاروں افراد نے دارالحکومت ڈبلن کی سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Crawley
امریکا، سن دو ہزار پندرہ
امریکا میں چھبیس جون سن دو ہزار پندرہ کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا کہ ملکی آئین ہم جنسوں کی مابین شادیوں کی قانونی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اسی فیصلے کی بدولت امریکا بھر میں ہم جنس جوڑوں کے مابین شادی کی راہ ہموار ہوئی۔ اس سے قبل بارہ برس تک امریکی سپریم کورٹ نے ہم جنس پسند افراد کے مابین شادی کو غیر آئینی قرار دیے رکھا تھا۔
جرمنی یورپ کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی گئی۔ تیس جون کو بنڈس ٹاگ میں 226 کے مقابلے میں یہ قانون 393 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ اگرچہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس قانون کے خلاف ووٹ دیا تاہم انہوں نے اس کے منظور کیے جانے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/O. Messinger
آسٹریلیا، سن دو ہزار سترہ۔ اٹھارہ
آسٹریلوی میں ایک پوسٹل سروے کرایا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اس ملک کی اکثریت ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی حمایت کرتی ہے تو ملکی پارلیمان نے دسمبر 2017 میں اس سلسلے میں ایک قانون منظور کر لیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Hamilton
تائیوان، سن دو ہزار انیس
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک ہے، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ سترہ مئی سن دو ہزار سترہ کو ملکی پارلیمان نے اس حوالے سے ایک تاریخی مسودہ قانون منظور کیا۔ اس قانون کی منظوری پر صدر نے کہا کہ ’حقیقی برابری کی طرف یہ ایک بڑا قدم ہے‘۔
تصویر: dapd
10 تصاویر1 | 10
'انتہائی مثبت قدم‘
اقو ام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریس، جو کتھولک ہیں، کے ترجمان نے پوپ فرانسس کے بیان کو 'انتہائی مثبت قدم‘ قرار دیا۔
گوٹیریس کے ترجمان اسٹیفن جوجارچ نے کہا”سکریٹری جنرل ہوموفوبیا کے خلاف ہم جنس پرستوں کے حق میں ہمیشہ پوری شدت کے ساتھ آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ ایسے افراد کے ساتھ، صرف اس وجہ سے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، کسی طرح کی زیادتی نہیں کی جانی چاہیے اور نہ ہی ان کے ساتھ امتیازی سلوک اختیار کیا جانا چاہیے۔"
گوکہ پوپ فرانسس کے بیان پر بعض حلقوں کی جانب سے خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے تاہم قدامت پسند مسیحیوں نے ان سے اس بیان کی وضاحت کرنے کے لیے کہا ہے۔
رہوڈ جزیرہ کے بشپ تھامس ٹوبن نے اپنے ایک بیان میں کہا”پوپ کا بیان ہم جنس شادیوں کے حوالے سے چرچ کی واضح طور پر دیرینہ تعلیمات کے یکسر منافی ہے۔ چرچ اس طرح کے غیر اخلاقی تعلقات کو قبول کرنے کی کسی صورت میں حمایت نہیں کرسکتا ہے۔"
ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز)
بھارت میں کیا اب ہم جنس پرستوں کی زندگی آسان ہو گی؟