امریکی ریاست کلیفورنیا میں شادی کرنےوالے سب سے پہلے ہم جنس پرستوں میں فلس لیوں اور اور ان کی مرحوم اہلیہ بھی شامل تھیں۔ تقریبا پچاس برس تک ہم جنس پرستوں کے لیے مہم چلانے والی فلس لیوں کا 95 برس کی عمر میں انتقال ہوا۔
اشتہار
ہم جنس پرستوں کی علمبردار فلس لیوں چل بسیں
امریکا میں ہم جنس پرستوں کے حقوق کی علمبردار فلس لیوں کا جمعرات 9 اپریل کو سان فرانسسکو میں انتقال ہوگیا۔
فلس لیوں اور ان کی مرحوم اہلیہ امریکی ریاست کیلفورنیا میں ہم جنس شادی کرنیوالے اولین ہم جنس پرستوں میں شامل تھیں۔ تقریبا پچاس برس تک ہم جنس پرستوں کے لیے مہم چلانے والی فلس لیوں کا 95 برس کی عمر میں انتقال ہوا۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا میں جب 2008 میں ہم جنس پرستی کو تسلیم کیا گیا اور ایسے افراد کو قانونی طور پر شادی کرنے کی اجازت ملی، تو جن ہم جنس پرست جوڑوں نے سب سے پہلے شادی کی تھی ان میں فلس لیوں اور ان کی اہلیہ بھی شامل تھیں۔ لیوں پیشے کے اعتبار سے صحافی اور ایک کارکن تھیں۔ انہوں نے اپنی اہلیہ ڈیل مارٹن کے ساتھ مل کر ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے تقریبا پچاس برس تک جد و جہد کی۔
ساٹھ اور ستّر کے عشرے میں، ایک ایسے وقت جب امریکی سماج میں ہم جنس پرستی کو گناہ کبیرہ اور بد نما داغ کے طور پر دیکھا جاتا تھا، انہوں نے ہم جنس پرست خواتین کے حقوق کے لیے ایک سماجی تنظیم کی بنیاد ڈالی اور ایسے افراد کے حقوق کے لیے ایک مخصوص ماہانہ جریدہ نکالا۔
'نیشنل سینٹر فار لیسبیئن رائٹس' کی سابق ڈائریکٹر اور فلس لیوں کی دوست کیٹ کینڈل نے انہیں یاد کرتے ہوئے کہا، ''موبائل فون کے آنے سے قبل، وہ فون درج کرنے کی ایک ڈائری رکھتی تھیں تاکہ اگر ہم جنس پرست برادری کی طرف سے کسی نوجوان یا پھر خوفزدہ شخص کو کبھی کوئی مدد کی ضرورت پڑے، تو وہ اس کے کام آسکیں۔''
امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی کا تعلق سان فرانسسکو سے ہے۔ انہوں نے فلس لیوں کو تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا، ''اپنی پیاری فلس کے لیے جہاں ہم ماتم کناں ہیں، وہیں یہ جان کر ہمیں سکون بھی ہے کہ وہ اور ان کی اہلیہ ڈیل ایک بار پھر سے ساتھ میں ہیں۔''
امریکی ریاست کیلفورنیا میں ہم جنس پرست جوڑوں کی شادیوں کو سن 2008 میں قانونی طور پر تسلیم کیا گیا، لیکن سان فرانسسکو شہر نے 2004 میں ہی ہم جنس پرست جوڑوں کی شادیوں کو تسلیم کرکے انہیں سرٹیفیکٹ دینے کا آغاز کر دیا تھا۔
کیلیفورنیا کے موجودہ گورنرگیون نیوسم اس وقت سان فرانسسکو کے میئر ہوا کرتے تھے اور انہوں نے بطور میئر 2004 میں ہی پہلی بار فلس
لیوں اور مارٹن ڈیل کے درمیان رشتے کی بنیاد پر شادی کا سرٹیفکٹ جاری کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے ٹویٹرپر ان کے لیے تعزیتی پیغام میں لکھا کہ یہ اعزاز کی بات ہے کہ انہوں نے ان کی شادی کروائی اور ان دونوں کے ہمت و حوصلے نے تاریخ بدل کر رکھ دی۔ ''فلس اور ڈیل محبت اور لگن کا مظہر تھے۔ اس کے باوجود تقریبا پچاس برس تک انہیں ’ایجاب و قبول‘ جیسے دو اہم الفاظ کہنے سے باز رکھا گیا۔''
2008 میں جب کیلیفورینا کی حکومت نے ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو تسلیم کرنا شروع کر دیا تو فلس لیوں اور مارٹن ڈیل نے دوبارہ شادی کی تاہم اس کے کچھ دن بعد ہی ڈیل کا انتقال ہوگیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق لیوں کی موت فطری طور پر ہوئی۔ ان کے اہل خانہ اور دوست و احباب نے ان کی زندگی کی کامیابیوں کے یاد کرنے کے لیے ایک جشن کے اہتمام کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے پی ڈی پی اے)
ایسے ممالک جہاں ہم جنس پسند شادی کر سکتے ہیں
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، جہاں ہم جنس پسند قانونی طور پر شادی کر سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اب تک کن ممالک میں ہم جنس پسندوں کی شادیوں کو ریاستی تحفظ فراہم کیا جا چکا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Yeh
ہالینڈ، سن دو ہزار ایک
ہالینڈ دنیا کا پہلا ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت دی گئی۔ ڈچ پارلیمان نے اس تناظر میں سن دو ہزار میں ایک قانون کی منظوری دی تھی۔ یکم اپریل سن دو ہزار ایک کو دنیا میں پہلی مرتبہ دو مردوں کے مابین شادی کی قانونی تقریب منعقد ہوئی۔ یہ شادی تھی اس وقت ایمسٹرڈیم کے میئر جاب کوہن کی۔ اب ہالینڈ میں ہم جنس جوڑے بچوں کو بھی گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ANP/M. Antonisse
بیلجیم، سن دو ہزار تین
ہالینڈ کا ہمسایہ ملک بیلجیم دنیا کا دوسرا ملک تھا، جہاں پارلیمان نے ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی اجازت دی گئی۔ سن دو ہزار تین میں ملکی پارلیمان نے قانون منظور کیا کہ خواتین یا مرد اگر آپس میں شادی کرتے ہیں تو انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے، جو شادی شدہ جوڑوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس قانون کے منظور ہونے کے تین برس بعد ہم جنس جوڑوں کو بچے گود لینے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/J. Warnand
ارجنٹائن، سن دو ہزار دس
ارجنٹائن لاطینی امریکا کا پہلا جبکہ عالمی سطح پر دسواں ملک تھا، جہاں ہم جنسوں کے مابین شادی کو ریاستی تحفظ فراہم کیا گیا۔ جولائی سن دو ہزار دس میں ملکی سینیٹ میں یہ قانون 33 ووٹوں کے ساتھ منظور ہوا جبکہ 27 ووٹ اس کے خلاف دیے گئے۔ اسی برس پرتگال اور آئس لینڈ نے بھی ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی بنانے کے حوالے سے قوانین منظور کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/L. La Valle
ڈنمارک، سن دو ہزار بارہ
ڈنمارک کی پارلیمان نے جون سن دو ہزار بارہ میں بڑی اکثریت کے ساتھ ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی۔ اسکینڈے نیویا کا یہ چھوٹا سا ملک سن 1989 میں اس وقت خبروں کی زینت بنا تھا، جب وہاں ہم جنس جوڑوں کو سول پارٹنرشپ کے حقوق دیے گئے تھے۔ ڈنمارک میں سن دو ہزار نو سے ہم جنس پسندوں کو اجازت ہے کہ وہ بچے گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/CITYPRESS 24/H. Lundquist
نیوزی لینڈ، سن دو ہزار تیرہ
نیوزی لینڈ میں ہم جنس پسند مردوں اور خواتین کو شادی کی اجازت سن دو ہزار تیرہ میں ملی۔ یہ ایشیا پیسفک کا پہلا جبکہ دنیا کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کو شادی کی اجازت دی گئی۔ نیوزی لینڈ میں انیس اگست کو ہم جنس پسند خواتین لینلی بنڈال اور ایلی وانیک کی شادی ہوئی۔ فرانس نے بھی سن دو ہزار تیرہ میں ہم جنس پسندوں کو شادی کی قانونی اجازت دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Air New Zealand
آئر لینڈ، سن دو ہزار پندرہ
آئرلینڈ ایسا پہلا ملک ہے، جہاں ایک ریفرنڈم کے ذریعے ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت کا قانون منظور ہوا۔ اس ریفرنڈم میں دو تہائی سے زائد اکثریت نے ہم جنسوں کے مابین شادی کی حمایت کی تو تب ہزاروں افراد نے دارالحکومت ڈبلن کی سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Crawley
امریکا، سن دو ہزار پندرہ
امریکا میں چھبیس جون سن دو ہزار پندرہ کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا کہ ملکی آئین ہم جنسوں کی مابین شادیوں کی قانونی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اسی فیصلے کی بدولت امریکا بھر میں ہم جنس جوڑوں کے مابین شادی کی راہ ہموار ہوئی۔ اس سے قبل بارہ برس تک امریکی سپریم کورٹ نے ہم جنس پسند افراد کے مابین شادی کو غیر آئینی قرار دیے رکھا تھا۔
جرمنی یورپ کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی گئی۔ تیس جون کو بنڈس ٹاگ میں 226 کے مقابلے میں یہ قانون 393 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ اگرچہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس قانون کے خلاف ووٹ دیا تاہم انہوں نے اس کے منظور کیے جانے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/O. Messinger
آسٹریلیا، سن دو ہزار سترہ۔ اٹھارہ
آسٹریلوی میں ایک پوسٹل سروے کرایا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اس ملک کی اکثریت ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی حمایت کرتی ہے تو ملکی پارلیمان نے دسمبر 2017 میں اس سلسلے میں ایک قانون منظور کر لیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Hamilton
تائیوان، سن دو ہزار انیس
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک ہے، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ سترہ مئی سن دو ہزار سترہ کو ملکی پارلیمان نے اس حوالے سے ایک تاریخی مسودہ قانون منظور کیا۔ اس قانون کی منظوری پر صدر نے کہا کہ ’حقیقی برابری کی طرف یہ ایک بڑا قدم ہے‘۔