تھائی لینڈ میں مسلمان ہم جنس پسندوں کو معاشرتی کشمکش کا سامنا ہے۔ وہ کئی مقامات پر اپنے مسلمان ہونے کی شناخت کو چھپانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
اشتہار
ایسے ہی ایک تھائی مسلمان ہم جنس پسند مصور سماک قاسم ہیں، انہیں شدید معاشرتی کشمکش اور مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ اپنے فنِ مصوری کو ہم جنس پسندی کا تاثر ابھارنے کے لیے پوری طرح استعمال کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ خاص طورپر انتشار کے شکار جنوبی تھائی لینڈ کے علاقے میں ہم جنس پسندوں کی مشکل زندگی کو اجاگر کرنے کی کوشش میں ہیں۔
جنوبی تھائی لینڈ میں مسلمان علیحدگی پسند اپنے مسلح تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں مسلمان ہم جنس پسندوں کو خاص طور پر اپنی جنسی پہچان کو چھپا کر رکھنا ہوتا ہے۔ یہی وہ کشمکش ہے، جس کو سماک قاسم اپنے فن میں پیش کرنے کی کوشش میں ہیں۔
سماک قاسم کا کہنا ہے کہ ہم جنس پسندی اُن کی ایسی ہی شناخت ہے جیسے وہ مسلمان ہیں۔ تھائی آرٹسٹ کا مزید کہنا ہے کہ بیشتر ہم جنس پسند مسلمانوں اس شناخت کی وجہ سے مذہب، خاندان اور معاشرتی کشمکش اور اختلاف کا سامنا کر رہے ہیں کیونکہ بحثیت مسلمان مذہبی اور معاشرتی توقعات کچھ اور خیال کی جاتی ہیں۔
تھائی آرٹسٹ سماک قاسم کے فن پاروں کی نمائش بنکاک کے آرٹ بیئنالے میں منعقد ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے فن پارے چین کے خصوصی انتظامی اختیارات کے حامل علاقے ہانگ کانگ کی مشہور زمانہ چیانگ مائی گیلری میں نمائش کے لیے پیش کیے جا چکے ہیں۔
سماک کے مطابق انہوں نے اپنے مسلمان معاشرے میں ہم جنس پسندوں کی اُس دہری زندگیوں کو پیش کیا ہے جس کو وہ بہ امر مجبوری اپنائے ہوئے ہیں۔ سماک کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی مسلمان ہم جنس پسند اپنی جان کے تحفظ کے لیے بھی اپنی پہچان کو چھپائے ہوئے ہیں کیونکہ سخت عقیدے کے مسمانوں کا خوف جنوبی تھائی لینڈ میں پایا جاتا ہے۔
دوسری جانب تھائی حکومت نے سول پارٹنر شپ کا قانون منظور کر چکی ہے اور اس کے تحت ہم جنس جوڑوں کی پارٹنرشپ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ بھی اہم ہے کہ نئی تھائی پارلیمنٹ میں ہم جنس پسند کمیونٹی کے چار افراد رکن بھی بنے ہیں۔
تھائی لینڈ کی اکثریتی آبادی بدھ مت کی ماننے والی ہے۔ اس ملک میں ہم جنسی پسندی کے خلاف امتیازی سلوک اور بیزاری کی کھلی ابتدا سن 1956 سے شروع ہوئی تھی۔
ایسے ممالک جہاں ہم جنس پسند شادی کر سکتے ہیں
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، جہاں ہم جنس پسند قانونی طور پر شادی کر سکتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اب تک کن ممالک میں ہم جنس پسندوں کی شادیوں کو ریاستی تحفظ فراہم کیا جا چکا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Yeh
ہالینڈ، سن دو ہزار ایک
ہالینڈ دنیا کا پہلا ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت دی گئی۔ ڈچ پارلیمان نے اس تناظر میں سن دو ہزار میں ایک قانون کی منظوری دی تھی۔ یکم اپریل سن دو ہزار ایک کو دنیا میں پہلی مرتبہ دو مردوں کے مابین شادی کی قانونی تقریب منعقد ہوئی۔ یہ شادی تھی اس وقت ایمسٹرڈیم کے میئر جاب کوہن کی۔ اب ہالینڈ میں ہم جنس جوڑے بچوں کو بھی گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ANP/M. Antonisse
بیلجیم، سن دو ہزار تین
ہالینڈ کا ہمسایہ ملک بیلجیم دنیا کا دوسرا ملک تھا، جہاں پارلیمان نے ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی اجازت دی گئی۔ سن دو ہزار تین میں ملکی پارلیمان نے قانون منظور کیا کہ خواتین یا مرد اگر آپس میں شادی کرتے ہیں تو انہیں وہی حقوق حاصل ہوں گے، جو شادی شدہ جوڑوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اس قانون کے منظور ہونے کے تین برس بعد ہم جنس جوڑوں کو بچے گود لینے کی اجازت بھی دے دی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/J. Warnand
ارجنٹائن، سن دو ہزار دس
ارجنٹائن لاطینی امریکا کا پہلا جبکہ عالمی سطح پر دسواں ملک تھا، جہاں ہم جنسوں کے مابین شادی کو ریاستی تحفظ فراہم کیا گیا۔ جولائی سن دو ہزار دس میں ملکی سینیٹ میں یہ قانون 33 ووٹوں کے ساتھ منظور ہوا جبکہ 27 ووٹ اس کے خلاف دیے گئے۔ اسی برس پرتگال اور آئس لینڈ نے بھی ہم جنس پسندوں کی شادی کو قانونی بنانے کے حوالے سے قوانین منظور کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/L. La Valle
ڈنمارک، سن دو ہزار بارہ
ڈنمارک کی پارلیمان نے جون سن دو ہزار بارہ میں بڑی اکثریت کے ساتھ ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی۔ اسکینڈے نیویا کا یہ چھوٹا سا ملک سن 1989 میں اس وقت خبروں کی زینت بنا تھا، جب وہاں ہم جنس جوڑوں کو سول پارٹنرشپ کے حقوق دیے گئے تھے۔ ڈنمارک میں سن دو ہزار نو سے ہم جنس پسندوں کو اجازت ہے کہ وہ بچے گود لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/CITYPRESS 24/H. Lundquist
نیوزی لینڈ، سن دو ہزار تیرہ
نیوزی لینڈ میں ہم جنس پسند مردوں اور خواتین کو شادی کی اجازت سن دو ہزار تیرہ میں ملی۔ یہ ایشیا پیسفک کا پہلا جبکہ دنیا کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کو شادی کی اجازت دی گئی۔ نیوزی لینڈ میں انیس اگست کو ہم جنس پسند خواتین لینلی بنڈال اور ایلی وانیک کی شادی ہوئی۔ فرانس نے بھی سن دو ہزار تیرہ میں ہم جنس پسندوں کو شادی کی قانونی اجازت دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Air New Zealand
آئر لینڈ، سن دو ہزار پندرہ
آئرلینڈ ایسا پہلا ملک ہے، جہاں ایک ریفرنڈم کے ذریعے ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی اجازت کا قانون منظور ہوا۔ اس ریفرنڈم میں دو تہائی سے زائد اکثریت نے ہم جنسوں کے مابین شادی کی حمایت کی تو تب ہزاروں افراد نے دارالحکومت ڈبلن کی سڑکوں پر نکل کر خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Crawley
امریکا، سن دو ہزار پندرہ
امریکا میں چھبیس جون سن دو ہزار پندرہ کو سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سنایا کہ ملکی آئین ہم جنسوں کی مابین شادیوں کی قانونی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ اسی فیصلے کی بدولت امریکا بھر میں ہم جنس جوڑوں کے مابین شادی کی راہ ہموار ہوئی۔ اس سے قبل بارہ برس تک امریکی سپریم کورٹ نے ہم جنس پسند افراد کے مابین شادی کو غیر آئینی قرار دیے رکھا تھا۔
جرمنی یورپ کا پندرہواں ملک تھا، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی قانونی اجازت دی گئی۔ تیس جون کو بنڈس ٹاگ میں 226 کے مقابلے میں یہ قانون 393 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ اگرچہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس قانون کے خلاف ووٹ دیا تاہم انہوں نے اس کے منظور کیے جانے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/O. Messinger
آسٹریلیا، سن دو ہزار سترہ۔ اٹھارہ
آسٹریلوی میں ایک پوسٹل سروے کرایا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ اس ملک کی اکثریت ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کی حمایت کرتی ہے تو ملکی پارلیمان نے دسمبر 2017 میں اس سلسلے میں ایک قانون منظور کر لیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Hamilton
تائیوان، سن دو ہزار انیس
تائیوان ایشیا کا پہلا ملک ہے، جہاں ہم جنس پسندوں کے مابین شادی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ سترہ مئی سن دو ہزار سترہ کو ملکی پارلیمان نے اس حوالے سے ایک تاریخی مسودہ قانون منظور کیا۔ اس قانون کی منظوری پر صدر نے کہا کہ ’حقیقی برابری کی طرف یہ ایک بڑا قدم ہے‘۔