’ہم سب زیادہ پرامن دنیا کے خواہش مند ہیں،‘ وفاقی جرمن صدر
24 دسمبر 2023
وفاقی جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے کرسمس کے موقع پر جرمن عوام سے اپنے روایتی خطاب میں بحرانی حالات میں امید پسندی کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ کسی کو بھی ’’زیادہ پرامن دنیا کی خواہش کبھی ترک نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
اشتہار
وفاقی جمہوریہ جرمنی میں ملکی صدر ہر سال کرسمس کے مسیحی تہوار سے ایک روز قبل شام کے وقت ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کرتا ہے اور شٹائن مائر ماضی میں کئی مرتبہ یہ روایتی خطاب کر چکے ہیں۔
آج اتوار کی شام کے لیے اپنے پہلے سے ریکارڈ شدہ امسالہ خطاب میں صدر شٹائن مائر نے جو کچھ کہا، اس کے آج ہی جاری کیے گئے تحریری متن کے مطابق جرمن سربراہ ریاست نے زور دے کر کہا کہ اس وقت جن چیلنجز کا جرمنی اور پوری دنیا کو سامنا ہے، ان پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہمت کے ساتھ باہمی تعاون کا مظاہرہ کیا جائے۔
فرانک والٹر شٹائن مائر کے الفاظ میں، ''اس سال دنیا نے ہمیں حقیقی معنوں میں اپنے تاریک پہلو سے متعارف کرایا ہے۔ یوکرین کے خلاف روسی جارحیت اب اپنے دوسرے موسم سرما میں داخل ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ اسی سال موسم خزاں سے ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ حماس نے اپنے دہشت گردانہ حملے کے ساتھ کیا کچھ کیا اور مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ کے متاثرین کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے۔‘‘
جرمن صدر کا اپنے ہم وطن شہریوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنا تھا کہ تمام تر مشکلات اور مسائل کے باوجود اہم بات یہ ہے کہ امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور چند روز بعد نئے سال 2024ء میں ایک نئی سوچ اور عزم کے ساتھ داخل ہوا جائے، ''اس لیے کہ ایک زیادہ پرامن دنیا کے خواہش مند تو ہم سب ہی ہیں اور یہ خواہش کبھی ترک نہیں کی جانا چاہیے۔‘‘
اجتماعی اشتراک عمل کی اہمیت
اپنے اس خطاب میں جرمن صدر نے مضبوط جمہوریت کے تسلسل پر بھی زور دیا اور کہا کہ کسی بھی معاشرے میں جمہوریت کو مضبوط تر اور مسلسل بنانے کا عمل اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے، جب عوام کو ساتھ لے کر چلا جائے اور وہ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے جدوجہد بھی کرتے رہیں کہ اگر ''آج کچھ اچھا نہیں بھی ہے، تو اسے آنے والے کل میں بہتر بنایا جا سکے۔‘‘
اشتہار
فرانک والٹر شٹائن مائر نے تفصیلات میں جائے بغیر یہ بھی کہا کہ سال 2023ء اس طرح ختم ہو رہا ہے کہ بہت سے جرمن باشندوں کی اس بارے میں تشویش ختم نہیں ہو سکی کہ ملک میں ''بہت سے معاملات ایسے ہیں جو حل ہونا چاہییں لیکن ابھی تک حل نہیں ہو سکے۔‘‘
اس صورت حال کا اجتماعی حل تجویز کرتے ہوئے صدر شٹائن مائر نے کہا، ''ہم مل کر مزید ترقی صرف مل کر کام کرتے ہوئے ہی حاصل کر سکتے ہیں، نہ کہ اس طرح کہ ہر کوئی پیچھے ہٹتے ہوئے خود کو اپنی اپنی انفرادی دنیا تک محدود کر لے۔‘‘
مستقبل سے متعلق امید پسندی
صدر شٹائن مائر نے اپنے کرسمس خطاب میں پولیس، فائر بریگیڈ، وفاقی فوج اور ریاستی اور عوامی اداروں کے ان تمام کارکنوں کا شکریہ بھی اد اکیا، جنہوں نے سال بھر جرمنی اور جرمن عوام کی خدمت کرتے ہوئے اپنے فرائض انجام دیے۔ ان کا کہنا تھا، ''میں آپ اور آپ کی طرح کے ان کئی ملین انسانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جو دنیا بالخصوص جرمنی کو زیادہ سے زیادہ پرامن اور متنوع بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔‘‘
جرمنی میں اگلے سال چونکہ ملک کے بنیادی قانون کے 75 برس بھی مکمل ہو جائیں گے، اس لیے اس تناظر میں صدر شٹائن مائر نے کہا کہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کی تاریخ میں یہ ایک اہم سنگ میل ہو گا، جسے خوشی سے منایا جانا چاہیے۔
جرمن صدر کے خطاب کے اختتامی جملوں میں ان کے یہ الفاظ بھی شامل تھے، ''اگر ہم کوشش کریں کہ ہم مل کر کھڑے ہوں اور متحد رہیں، تو ہم کامیاب ہو سکتے ہیں اور ہوں گے۔‘‘
م م / ع ت (ڈی ڈبلیو)
جرمنی میں کرسمس کی روایات
کرسمس کے موقع پر مذہبی سروس، شام ڈھلے تحائف کا تبادلہ اور پھر دوست احباب کے ساتھ کسی پَب میں جا کر پینا پلانا اور گپ شپ لگانا کرسمس کی شام جرمن روایات کا لازمی حصہ ہوتا ہے تاہم وقت کے ساتھ ساتھ روایات بدل بھی رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
چمکتی دمکتی اَشیاء سے سجا کرسمس ٹری
ایک زمانے میں کرسمس ٹری چھت سے لٹکا ہوتا تھا جبکہ آج کل اسے کمرے کے ایک کونے میں رکھا جاتا ہے۔ کرسمس ٹری کو اس تہوار کی سجاوٹ میں مرکزی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
تصویر: Fotolia/megakunstfoto
سادہ کھانا
چوبیس دسمبر کو صبح کے وقت لوگ باقی ماندہ تحائف خریدنے کے لیے بازار کا رخ کرتے ہیں، دوپہر کو کرسمس ٹری کو سجاتے ہیں اور سہ پہر کو مذہبی سروس میں شرکت کے لیے چرچ جاتے ہیں۔ چونکہ زیادہ تر کنبوں کے لیے یہ دن مصروفیات سے پُر ہوتا ہے، اس لیے شام کا کھانا سادہ ہی ہوتا ہے، یعنی آلو کا سلاد اور قیمہ بھری آنت۔ بطخ کے گوشت کا مرغن کھانا کرسمس کے باقی دنوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
تصویر: imago
کرسمس بازاروں کی رونق
دیکھا جائے تو کرسمس بازار کرسمس کا لازمی حصہ نہیں ہوتے اور بہت سے مقامات پر چوبیس دسمبر سے پہلے ہی یہ بازار بند ہو جاتے ہیں تاہم بہت سے مقامی باشندوں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے آنے والے ہزاروں سیاح بھی آخر وقت تک نیورمبرگ اور ڈریسڈن جیسے شہروں کے مشہور کرسمس بازاروں کو ضرور دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Broll
کرسمس کی داستان، مجسموں کی شکل میں
کرسمس کے دنوں میں بہت سے جرمن شہری اپنے گھروں کو حضرتِ عیسیٰ اور اُن کی والدہ حضرت مریم کے لکڑی کے بنے مجسموں سے سجاتے ہیں۔ یہ روایت صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ ایک دور میں اس طرح کے مجسمے اُن عقیدت مندوں کے لیے بنائے جاتے تھے، جو پڑھے لکھے نہ ہونے کی وجہ سے مسیحیت کے ابتدائی دنوں کی داستان پڑھنے سے قاصر ہوا کرتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
شمالی جرمن ثقافتی روایات
ایک زمانے میں کرسمس سے پہلے کے ہفتوں میں روزے رکھنے کا رواج تھا اور خاص طور پر بچوں کو یہ بتانے کے لیے کہ روزے ختم ہونے میں ابھی کتنے ہفتے باقی ہیں، اُنیس ویں صدی میں شمالی جرمنی میں چار بڑی موم بتیوں کی روایت شروع کی گئی۔ ہر نئے ہفتے کے آغاز پر ایک نئی موم بتی جلائی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تحائف کا تبادلہ چوبیس دسمبر کو ہی
جرمنی میں تحائف کے منتظر بے صبرے افراد کو کرسمس کے دن تک کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ روایت یہ ہے کہ کرسمس سے ایک شام قبل ہی یہ تحائف تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔ یہ تحائف عموماً بہت زیادہ مہنگے نہیں ہوتے بلکہ ایک سروے کے مطابق تو تقریباً ایک تہائی جرمن شہریوں کے لیے اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کے ساتھ مل کر گزارا گیا وقت مثلاً سیر و تفریح ہی کافی ہوتا ہے اور ان کے لیے بہت زیادہ خوشی کا باعث بنتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دستکاری کے خصوصی نمونے
جرمن صوبے سیکسنی کے علاقے اَیرس ماؤنٹینز کی لکڑی کو تراش کر بنائی گئی دستکاری مصنوعات جرمنی ہی نہیں پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ لوگ دسمبر کے اوائل ہی سے انہیں گھروں کی زینت بنانا شروع کر دیتے ہیں تاہم بہت سے جرمن گھرانوں میں امریکا سے آئی ہوئی مصنوعات مثلاً پلاسٹک کے سانتا کلاز یا پھر برقی قمقموں کے استعمال کا بھی رجحان بڑھ رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کرسمس کی خصوصی مٹھائیاں
اس مسیحی تہوار کے موقع پر دیگر مٹھائیوں کے ساتھ ساتھ یہ خصوصی کیک بھی شوق سے کھایا جاتا ہے۔ اس میں بادام اور کشمش وغیرہ ڈالے جاتے ہیں۔ جرمن شہر ڈریسڈن کے کرسمس کیک خاص طور پر مشہور ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کرسمس سے ایک روز پہلے کی لمبی شام
جب چوبیس دسمبر کو تحائف کا تبادلہ مکمل ہو جاتا ہے اور رات کا کھانا بھی کھا لیا جاتا ہے تو بہت سے نوجوان لڑکے لڑکیاں شہر میں سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے ہیں۔ تب کیفے ہاؤسز اور ریستورانوں میں اسکول کے دور کے پرانے دوستوں سے ملاقاتیں کی جاتی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ہر چھٹا جرمن شہری چوبیس دسمبر کی شام ایسے ہی گزارتا ہے۔
تصویر: DW/M. Mohseni
سوئٹزرلینڈ سے درآمدہ نئی روایت
بطخ کا بھنا ہوا گوشت، اُبلے ہوئے آلو یا آٹے کے پیڑے جنہیں بھاپ میں پکایا جاتا ہے اور سرخ رنگ کی بند گوبھی، کرسمس کی شام کا یہ کھانا بہت سے جرمنوں میں بچپن کی یادیں تازہ کر دیتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے سوئٹزرلینڈ سے آئی ہوئی اور پنیر سے بنی ہوئی ایک روایتی ڈِش جرمن باورچی خانوں میں پہنچ چکی ہے اور کرسمس کے موقع پر شوق سے کھائی جاتی ہے۔