انسانی حقوق کے ليے سرگرم تنظيم ايمنسٹی انٹرنيشنل نے ميانمار ميں رونگيا مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم کی تفصيلات پر ايک تازہ رپورٹ جاری کی ہے، جس ميں پرتشدد کارروائيوں ملوث تيرہ فوجی جنرلوں کے نام بھی شامل ہیں۔
اشتہار
ايمنسٹی انٹرنيشنل کی يہ رپورٹ ’ہم سب کچھ تباہ کر ديں گے‘ کے عنوان سے جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق يہ الفاظ ميانمار کے ايک فوجی جنرل کے ہيں، جو اس نے ٹيلی فون پر گفتگو کے دوران کہے اور جس کی ريکارڈنگ اس تنظيم کے تفتيش کاروں کے ہاتھ لگ گئی۔ ايمنسٹی انٹرنيشنل کے مطابق يہ الفاظ روہنگيا مسلمانوں کے ليے ميانمار کی افواج کی جانب سے اپنائی گئی حکمت عملی کے عکاس ہیں۔
ايمنسٹی کی اس رپورٹ ميں ميانمار کی راکھين رياست ميں مسلم روہنگيا کميونٹی پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مزيد تفصيلات بيان کی گئی ہيں اور ساتھ ہی تيرہ ايسے اعلی فوجی کمانڈروں کے نام بھی بيان کيے گئے ہيں، جو مبینہ طور پر تشدد ميں ملوث رہے ہیں۔
ميانمار ميں سکيورٹی فورسز کے کريک ڈاؤن کے سبب گزشتہ برس اگست سے لے کر اب تک تقريباً سات لاکھ روہنگيا مہاجرين پڑوسی ملک بنگلہ ديش فرار ہو چکے ہيں اور اس وقت وہاں انتہائی خستہ حال کيمپوں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔
میانمار: روہنگیا مسلمانوں کی جگہ نئے لوگوں کی آبادکاری
میانمار میں فوجی کارروائیوں کے باعث لاکھوں روہنگیا اپنے دیہات چھوڑ کر پناہ کے لیے بنگلہ دیش کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد اب وہاں نئے لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
’ماڈل ولیج ‘کی تعمیر
وہ علاقے جہاں بحالی کا کام کیا جا رہا ہے، وہاں اب بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس علاقے کو ماڈل ولیج کی طرز پر بنایا جا رہا ہے۔ میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس علاقے کو خالی اس لیے کروایا گیا تاکہ یہاں نئی آبادکاریاں کی جائیں۔ اس کے تحت وہاں بہتر سڑکوں اور نئے گھروں کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
نئے لوگوں کی آمد
ملک کے دیگر علاقوں سے یہاں آنے والوں رہائش کی اجازت ہے۔ تاہم یہاں آ کر بسنے والوں کی تعداد نہ صرف انتہائی کم ہے بلکہ اکثریت کا تعلق ملک کے جنوبی علاقوں سے آئے انتہائی غریب طبقے سے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
عوام میں خوف
یہاں آکر بسنے والے لوگوں نے اس علاقے سے نئی زندگی کی کئی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں تاہم انہیں یہاں بحالی سے قبل رہنے والوں کی واپسی کا خوف بھی ہے۔ اب تک سات لاکھ روہنگیا ان علاقوں سے بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
غیر مسلم علاقہ
راکھین کی تعمیر نو کے لیے ایک ضمنی کمیٹی CRR بنائی گئی ہے۔ یہ ایک پرائیویٹ پلان ہے اور اس کمیٹی کے مقامی رہنما کے مطابق اس پلان کے تحت آباد کیے جانے والے علاقوں کو صرف غیر مسلموں کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
آبادکاری کے لیے فنڈنگ
راکھین کے پارلیمانی ممبر کے مطابق یہ علاقہ اب سے قبل صرف مسلمانوں کے زیر اثر تھا۔ لیکن اب ان کے جانے کے بعد یہاں دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو جگہ دی جائے گی۔ یہاں نئے گھر بنانے اور لوگوں کو بسانے کے لیے راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی فنڈ جمع کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
64 خاندانوں کی آبادکاری
اب تک راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی CRR کی جانب سے 64 خاندانوں کے 250 افراد کو یہاں آباد ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ جبکہ دو سو افراد نے یہاں بسنے کی خواہش ظاہر کی ہے جن کے نام ابھی ویٹنگ لسٹ میں درج ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور اور انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
6 تصاویر1 | 6
اقوام متحدہ نے اپنی متعدد رپورٹوں ميں راکھين ميں روہنگيا کميونٹی کے خلاف کارروائی کو نسل کشی سے تعبير کيا ہے اور اس سلسلے ميں میانمار کی حکومت اور بالخصوص نوبل امن انعام يافتہ آنگ سان سوچی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
ایمنسٹی کے مطابق ان کی تحقیقاتی ٹیم نو ماہ تک روہنگیا کے خلاف روا رکھے جانے والے اس ’سفاکانہ طرز عمل‘ کے ثبوت اکھٹے کرتی رہی۔ اس سلسلے میں کئی سو متاثرین سے بات چیت بھی کی گئی۔ اس کے علاوہ تصاویر ، ویڈیوز اور فورینزک ماہرین سے بھی اس رپورٹ کی تیاری میں مدد لی گئی۔
میانمار کی حکومت کی جانب سے اس رپورٹ کے حوالے سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ دو سو صفحات پر مبنی اس رپورٹ میں اراکان روہنگیا سالویشن آرمی کے بارے میں تفصیلات بھی شامل ہیں۔ یہ وہی مسلح گروہ ہے، جس کے حملوں کے بعد میانمار کی فوج نے روہنگیا کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔