1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہم لباس کی بنیاد پر عورت کے کردار کو پرکھنا کب بند کریں گے؟

28 مئی 2022

کیا آپ مسلمان نہیں؟ اس قسم کی ڈریسنگ آپ کو زیب نہیں دیتی، ’’شرم کرو، تم سے اس قسم کے لباس کی توقع نہیں تھی۔‘‘

تصویر: Privat

اگر آپ انسٹاگرام پر پاکستانی خواتین فنکاروں اور  مشہور افراد کے کمینٹ سیکشن پر جائیں تو آپ کو اس قسم کے بیانات پاکستانی مردوں اور بدقسمتی سے بہت سی عورتوں کی طرف سے ملیں گے، جو 'اندرونی میسوجینی‘ یا پدرسری کا شکار ہیں۔ بات چیت آف لائن جگہوں پر بھی ایسی ہی ہے، جہاں خواتین اور ان کے کردار کو ان کے کپڑوں اور ظاہری رہن سہن کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے۔

 ہراساں کرنے، چھیڑ چھاڑ اور جنسی زیادتی جیسے ہولناک اعمال کو بھی خواتین کے لباس سے بطور جواز منسلک کیا جاتا ہے۔ ایسے جرائم اور ناروا سلوک سے بچنے کے لیے خواتین کو سخت اخلاقی پولیسنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس طرح توقع کی جاتی ہے کہ خواتین خود پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے اپنی آزادی کی قربانی دیں، باہر جانے کی آزادی کی قربانی، وہ جو پہننا چاہتی ہیں، ان خواہشات کی قربانی۔

پاکستانی خواتین کے ساتھ ساتھ اب چند ترک اداکارائیں بھی ہماری اس 'اخلاقی پولیس‘ کے نشانے پر ہیں۔

’’کاش حقیقت میں اتنی بے ہودہ اداکارہ کو ارطغرل جیسے ڈرامے میں منتخب نہ کیا جاتا۔‘‘ مشہور اداکارہ ایسرا بیلجک کی پوسٹ پر ایک پاکستانی صارف کا یہ تبصرہ میری نظر سے گزرا۔ اسی طرح کے بے شمار اور بھی تبصرے آپ کوملیں گے، جن کا  ہدف صرف اور صرف خواتین ہوتی ہیں۔

 ترکی میں حال ہی میں ایک واقعہ پیش آیا ہے، جہاں چند پاکستانی لڑکوں نے ترک خواتین کی ان کی مرضی کے بغیر تصاویر اور ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پوسٹ کیں، جو پاکستان کے لیے کافی بدنامی کی  وجہ بنیں۔ اس واقعے کے بعد ترک سوشل میڈیا پر ''پاکستانی پروڑس اور پاکستانیز گیٹ آوٹ‘‘ جیسے ٹرینڈ بھی چلے۔ یہ واقعہ فیمیل اوبجیکٹیفیکیشن اور اخلاقی زوال  کی مثال ہے۔ ہمارا معاشرہ لباس کی بنیاد پر خواتین اور ان کے کردار کے بارے میں رائے قائم کرنے کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے۔

’’بے شرم  اور غیر اخلاقی‘‘ ایسے الفاظ ہیں، جو اُن خواتین سے منسلک کر دیے گئے ہیں، جن کی شخصیت معاشرے کے روایتی ماڈل کے مطابق نہیں۔ ایک ''باوقار عورت‘‘ وہ سمجھی جاتی ہے، جو زیادہ سے زیادہ معاشرتی روایات کی پابند ہو۔ ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مغربی لباس یا مختصر کپڑے پہننے کا مطلب یہ نہیں کہ لڑکی ہراساں کیے اور غلط طریقے سے فلمائے جانے کی دعوت دے رہی ہے۔ عورت کا کردار اس کا لباس نہیں ہے اور عورت کو کوئی شے نہ سمجھا جائے۔ حدود اور رضامندی کے اصول کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ عورت کو انسان سمجھنے کی ضرورت ہے، جس کا ہمارے معاشرے میں فقدان ہے۔

خواتین کو اخلاقی پولیسنگ کے تحت خاندانوں کی عزت اور وقار سے نتھی کر دیا گیا ہے۔ انہیں آزادی اور اعتماد سے محروم کرنے کی کوشش میں ''لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ جیسے جملے ہمارے معاشرے کے ہر گھر میں استعمال ہوتے ہیں، جنہیں تقریباً ہر عورت نے سنا ہے۔

پدرانہ معاشرے اپنی خواتین کو کنٹرول کرنے کی بہت طرح سے کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ اخلاقی پولیسنگ ہے۔ اخلاقی یا مارل پولیسنگ کا اپنے وسیع معنوں میں ایک ایسا نظام ہو سکتا ہے، جہاں معاشرے کے بنیادی معیارات کی خلاف ورزی کرنے والوں کی سخت نگرانی کی جاتی ہو۔ یہ رویہ ہراساں کرنے سے کم نہیں اور  دقیانوسی تصورات کو فروغ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اخلاقیات کا پیمانہ ہر شخص کے لیے مختلف ہوتا ہے اور اس کو کسی دوسرے پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ جو پہناوا ایک شخص کے لیے غیر اخلاقی ہے وہ ضروری نہیں دوسرے کے لیے بھی ایسا ہی ہو۔

 صحت مند، سیکولر اور فلاحی معاشرے تمام طبقات کے لیے 'جیو اور جینے دو‘  کے تصور پر پروان چڑھتے ہیں لیکن جنوبی ایشیا کو بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ پدرانہ نظام نہ صرف خواتین کو محدود کرتا ہے بلکہ مردوں کو بھی مساوی طور پر متاثر کرتا ہے۔ اخلاقی پولیسنگ ہمارے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کا ایک لازمی حصہ بن چکی ہے، جہاں نصاب سے زیادہ لڑکیوں کے لباس پر توجہ دی جاتی ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ ہم خواتین کو زبردستی کنٹرول کرنا اور ان کی اخلاقی پولیسنگ کب بند کریں گے؟ ان کے کردار کے بارے میں فیصلے کرنے کے لیے ہم لباس جیسی 'معمولی معیار‘ کا استعمال کب بند کریں گے؟ ہم معاشرے میں اپنے پدرانہ رویوں سے منسلک ایسے مسائل کو کب سدھاریں گے، جو خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک پر مبنی ہیں؟ کیونکہ اس کے بغیر خواتین کی اصل معنوں میں خوش حالی ممکن نہیں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں