وقت کے تقاضوں سے مطابقت پیدا نہ کی تو انفرادی سطح پر دنیاوی ناکامی دراصل قوم کی اجتماعی ناکامی بن سکتی ہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے تقاضوں اور مطالبات کے ساتھ چلنا ہی انسان کو اقتصادی و ثقافتی ترقی دے سکتا ہے۔
اشتہار
بھائی اللہ معاف کرے ، ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔۔۔ یہ جملہ آپ نے کئی بار اپنے بڑوں سے سنا ہوگا۔ جب کبھی وہ کچھ نیا دیکھتے ہیں اور ایسا نیا جو ان کی روایتی سمجھ سے باہر ہو تو سب سے پہلے اسے رسم و رواج کے خلاف سازش سمجھا جاتا ہے ۔
جب اس سے بات نہ سنبھلے تو اس کو مذہب سے دوری کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے، جب یہ حربہ بھی ناکام ہو جائے تو اس نئے پن کو طاقت کے زور پر روکنے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔
زیادہ دور کیا جانا یہ ماضی قریب میں ہی چلے جاتے ہیں ۔ کہاں رواج تھا کہ لڑکیاں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھیں ، جس نے خاندان ، محلے یا شہر میں سے پہلا قدم گھر سے باہر نکالا، اسے مشترکہ طور پر تنقید کی زد پر رکھ لیا جاتا۔ اسے آوارہ اور بد چلن سمجھا جاتا اور کوشش کی جاتی کہ اس لڑکی سے اپنی بیٹیوں کو دور رکھا جائے، کہیں وہ اس کی دیکھا دیکھی اس آزادی کا مطالبہ نہ کردیں۔ جب کوئی پڑھی لکھی خاتون ملازمت کرتی تو بھی ایسی عورت کو پسند نہیں کیا جاتا تھا، اس کے خاندان کو عورت کی کمائی کھانے کا طعنہ دیا جاتا۔
ہمارے کچھ ادیبوں نے تو ملازمت کرنے والی خواتین کے خلاف لکھا بھی کہ ایسی عورتیں اچھی مائیں، اچھی بیویاں حتیٰ کہ اچھی عورتیں ہی نہیں ہوتیں۔ یہ خیال اس حد تک راسخ تھا کہ میں اپنے بچپن میں ہرٹیچر، نرس ، ڈاکٹر اور کسی بھی محکمے میں جاب کرتی ہوئی عورتوں کو برا ہی خیال کرتی تھی۔
بانو قدسیہ نے اپنے ناول ' راجہ گدھ ‘ میں عورتوں کے اس رویے پر بھی بات کی کہ ٹوپی والا برقع پہننے والی عورت انگریزی برقعے میں لپٹی عورت کو بدکردار خیال کرتی ہے ۔ انگریزی برقعے والی چادر برقعے والی کو، چادر برقعے والی صرف چادر میں لپٹی ہوئی کو ، چادر والی دوپٹہ اوڑھے ہوئے کو، دوپٹہ اوڑھنے والی گلے میں دوپٹے والی کو جبکہ گلے میں دوپٹے والی بغیر دوپٹے والی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
چھوٹے گھر: سادہ زندگی کی تلاش میں
کسی ایک مخصوص جگہ میں، چند ضروریاتِ زندگی کے ساتھ گزر بسر کرنا ہر ایک کا خواب نہیں ہو سکتا۔ دوسری جانب چھوٹے گھر کی تحریک مقبولیت حاصل کرتی جا رہی ہے، خاص طور پرماحول دوست طبقے میں۔
تصویر: Hilda Weges/Zoonar/picture alliance
والڈن پونڈ کا کیبن
امریکی ادیب اور فلسفی ہنری ڈیوڈ تھوراؤ کے الفاظ ہیں کہ وہ دانستہ جنگل میں جا کر رہنے لگے تھے۔ انہوں نے سن 1845 سے 1847 کا عرصہ امریکی ریاست میساچوسٹس کے علاقے والڈن پونڈ کے جنگل میں واقع ایک چھوٹے سے کیبن میں تنہا گزارا۔ ایک صدی بعد ان کا طرزِ زندگی کئی افراد کو بھا گیا۔ اب دنیا بھر میں چھوٹے گھر کی تحریک مقبول ہو رہی ہے۔
تصویر: Michael Dwyer/AP Photo/picture alliance
سادہ زندگی
چھوٹے گھروں میں رہنے کے نظریے کو مقبولیت امریکا میں سن 1970 کی دہائی میں ملنا شروع ہوئی۔ بعض لوگ گھر چھوٹے رکھتے ہوئے ماحول دوستی کی جانب راغب ہوئے۔ امریکا میں سن 2018 میں چھوٹے گھر کو انٹرنیشنل ریزیڈینشل کوڈ کے تحت ایک رہنے کا مکان قرار دے دیا گیا۔ ایسا مکان جو زیادہ سے زیادہ سینتیس مربع میٹر (400 مربع فٹ) پر بنا ہو۔
تصویر: DW/G. Bencheghib
زندگی گزارنے کی تنگ جگہ
ایک چھوٹے مکان میں چھوٹا سا کچن اور بقیہ رہنے کا علاقہ ہوتا ہے۔ یہی جاگنے اور سونے کی جگہ ہے۔ مچان کی طرح کا اسٹور بھی احتیاط سے نصب کیا جاتا ہے۔ کئی چھوٹے گھر پہیوں پر کھڑے بھی ہوتے ہیں اور اس میں رہنے والا جب چاہے کسی اور جگہ منتقل ہو جائے۔ یہ کیمپر وین جیسے نہیں بلکہ ایک مکمل گھر ہوتا ہے۔
تصویر: Alexandra Wey/KEYSTONE/picture alliance
امریکا سے باہر بھی
جرمنی میں بھی چھوٹے گھروں کو حالیہ برسوں میں مقبولیت ملی ہے۔ جنوبی جرمن جنگلات میں ہزاروں افراد چھوٹے گھروں کے رہائشی بن چکے ہیں۔ جرمنی میں سن 2017 میں پہلا چھوٹے گھروں کا گاؤں (Tiny House Village) قائم ہوا۔ یہ گاؤں باویریا کے ضلع مہل مائزل میں ہے۔ اس میں رہنے والے تیس افراد ایک چھوٹا سا ہوٹل (Tiny House Hotel) بھی چلاتے ہیں۔ اس ہوٹل میں مہمان سادہ زندگی کا لطف لے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Armer
ماحول دوستی
کم سے کم ضروریات کے ساتھ اس طرزِ زندگی کو ماحول دوستی کا رویہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ چھوٹے گھر ماحول پسندی کی ایک مثال بھی بن چکے ہیں۔ سن 2012 میں مغربی جرمنی کے ہامباخ جنگل میں کان کنی کا منصوبہ بنایا گیا۔ لوگوں نے اس کی مخالفت شروع کر دی اور جنگلاتی علاقے پر قبضہ کر کے رہائش اختیار کر لی۔ اس طرح وہ ہامباخ کے قدیمی قدرتی جنگلاتی ماحول کو بچانے میں کامیاب رہے۔
تصویر: David Young/dpa/picture alliance
کم سے کم ضیاع کا امکان
شہروں میں بھی چھوٹے گھر زندگی گزارنے کا متبادل بنتے جا رہے ہیں۔ اس طرح لوگ مہنگے کرایوں سے بچنے کے علاوہ ایک مکمل مکان کی نصف قیمت میں زندگی کی شروعات کر سکتے ہیں۔ برلن میں کچھ لوگ کشتیوں پر بنے چھوٹے گھروں میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان میں کاربن کا اخراج بھی کم اور ماحول دوست ٹوائلٹ بنائے گئے ہیں۔
تصویر: Winfried Rothermel/picture alliance
بے گھری کے مسائل کا ممکنہ حل
چھوٹے گھر ماحول دوست ہونے کے ساتھ ساتھ شہروں میں مکانوں کی ضروریات کا متبادل بھی بن سکتے ہیں۔ کئی مغربی ممالک میں بے گھری کے مسئلے کو ان کی تعمیر سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ امریکا میں ایک سو سے زائد چھوٹے گھروں کے دیہات قائم ہیں۔ ان میں ضرورت مند عارضی رہائش بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بے گھر افراد کو ان مکانات میں آباد کرنا انسانی وقار کے منافی ہے۔
کئی چھوٹے گھر مدد یا سہارے سے بے نیاز ہیں۔ ان میں شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے والے پینل بھی لگے ہوئے ہیں۔ اس طرح صاف انرجی بھی چھوٹے گھروں میں دستیاب ہو سکتی ہے۔ کورونا وبا میں شہری زندگی کی دھکا پیل سے ایسے مکانوں میں منتقلی کو مقبولیت ملی۔ سن 2020 کے ایک سروے کے مطابق نصف امریکی آبادی ایسے مکانوں میں رہنے پر غور کر رہی ہے۔
تصویر: Jan Everhard/Hollandse Hoogte/picture alliance
اسی طرز پر جب کسی گاؤں میں دھوتی کرتے کے علاوہ کسی مرد کو شلوار قمیض میں دیکھا جاتا توا س کا مذاق اڑایا جاتا۔ جب یہ شلوار قمیض عام چلن کا حصہ ہوگیا تو پتلون پہننے والے کو عجیب نظروں سے دیکھا جاتا۔ جب پتلون والے کو قبول عام کا درجہ ملا تو ٹی شرٹ اور شارٹس والوں کو 'بے حیا‘ سمجھا گیا ۔ اور ان کے بزرگوں کو یہ کہتے بھی دیکھا کہ ان کا زمانہ تو بہت سادہ و معصوم تھا۔
اپنے بچپن میں جائیے اور غور کیجیے جب گھروں میں پہلی بار ٹیلی وژن آیا تھا تو کیسے کیسے فتوے دیے گئے تھے۔ مجھے میری نانی اماں یاد ہیں جو ٹی وی پر دکھنے والے نا محرموں کو دیکھ کر ہمیں گالیاں دیا کرتی تھیں کہ وہ ہمارے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں اور ہم منہ پھاڑ سر جھاڑ بے شرمی کے ساتھ انہیں دیکھ رہے ہوتے تھے اور انہیں یہ یقین تھا کہ وہ مر د بھی ہمیں دیکھتے ہوں گے۔
یہ ہی ٹی وی جسے شیطان کا آلہ کار کہا جاتا رہا اور بزرگوں کے منہ سے سنتے رہے کہ ان کے زمانے میں ایسی بے شرمی نہیں ہوا کرتی تھی ، وقت کے ساتھ ساتھ ان بزرگوں کی واحد پسندیدہ تفریح بن گیا۔ جن مولویوں سے فتوے لیے جاتے تھے جو تصویر کو حرام کہتے تھے، جنہوں نے چوک میں ٹیلی وژن رکھ کے ان کے ڈھیر جلائے تھے ، آج ان کے اپنے چینلز ہیں۔
موبائل فون کی طرف آجائیں، جب خط کا زمانہ تھا تو گھر کی لڑکیاں پڑھانے لکھانے سے گریز کیا جاتا تھا کہ کہیں وہ خط لکھنے پڑھنے کے فن سے آگاہ نہ ہوجائیں کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو وہ ہاتھ سے نکل جائیں گی۔ جب لڑکیوں کی تعلیم اور خط لکھنے پڑھنے کو عیب سمجھنا چھوڑا گیا تو ٹیلی فون جیسی 'بے حیائی‘ نے گھر کا راستہ دیکھ لیا۔
شروع میں گھر کی عورتوں کو اجازت بھی نہ ہوتی کہ گھنٹی بجنے پر وہ فون اٹینڈ کر لیں، کسی نامحرم کو ان کی آواز کیوں سنائی دے اور کسی نامحرم کی آواز وہ کیوں سنیں ۔ جب یہ بات عام ہو گئی تو موبائل فون نے نیا چیلنج سامنے رکھ دیا جب تک یہ بہت مہنگا تھا عام لوگوں کی رسائی میں نہیں تھا تب بھی کسی اداکار یا ادکارہ کے پاس ہونے کی صورت میں اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ۔ جب یہ ہر کسی کے ہاتھ آگیا تو سب سے پہلی بات جو سننے کو ملی وہ یہ تھی کہ موبائل فون جس لڑکی کے پاس ہو گا وہ یقیناً 'بے حیا‘ ہوگی اور آج ایسا کہنے والوں کے شیر خوار بچوں کے ہاتھوں میں بھی موبائل ہیں۔
غرض زندگی کے ہر قدم پر آگے بڑھتی اس تیز رفتار دنیا میں آپ لمحہ لمحہ تبدیلی سے گزرتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ زمانہ رکا رہے۔ آپ جس جگہ کو چھوڑ کر آجاتے ہیں کچھ مدت بعد واپس وہاں جانے پر کسی قسم کی تبدیلی پر اکثر لوگوں کو میں نے آبدیدہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔
بہت سی شاعری اور فکشن بھی گزرے زمانے اور معاملات کے ختم ہوجانے کے نوحے بیان کرنے پر مشتمل ہے۔ عظمت رفتہ پر رونا دھونا بھی دنیا کے چلن کا حصہ ہے، جو ہمارے پاس ہے جو موجود ہے اسے قبو ل نہ کرنا اور گزرے وقت کی یادوں کو سینے سے لگا کر اس وقت کے لوٹ آنے کی تمنا انسانی رویوں میں سب سے نمایاں رویہ ہے۔ کچھ لوگ اسے 'ناسٹیلجیا‘ کا نام دیتے ہیں اور گزرے وقت کی اچھی باتوں کو یاد کرنا اور آپس میں ان یادوں کے تبادلے کو مثبت خیال کرتے ہیں ۔
لیکن اس رویے کو کیا نام دیا جائے کہ آپ کسی بھی تبدیلی کو قبول نہ کریں اور ہر نسل بعد میں آنے والی نسل کے لیے اپنے دور کے پیمانے سیٹ کر کے بیٹھی رہے اور ان کے ہر اٹھتے قدم پر یہ اعتراض لگائے کہ یہ ان کے زمانے میں نہیں تھا تو اب اس نسل کے زمانے میں میں بھی نہیں ہونے دیں گے۔
نسل انسانی کے ارتقاء کا راز ہی جب یہ ہے کہ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالتے جائیں تو کس لیے اپنے بچوں اور دوسروں کے آگے بڑھنے کے راستے میں رکاوٹیں بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ کیوں ہر بعد والی نسل پر فرض ہے کہ وہ آپ کے دور کے حساب سے اپنے دور سے بیس پچیس یا پچاس سال پیچھے رہ کر زندہ رہے۔
اب اس رویے کو بدلنے پر غور کریں تاکہ ہم اور ہماری اگلی نسلیں دنیا سے کئی سو سال پیچھے رہنے کی بجائے ان کے کندھے سے کندھا ملا کر چلیں اور دنیا کی امامت کا جو خواب آپ پتھر کے دور میں جا کر پورا کرنا چاہ رہے ہیں وہ اگلے وقتوں میں نئے دور کے تقاضوں کے حساب سے در حقیقت پورا ہو سکے۔
جرمن طرز زندگی کی پہچان
تمام جرمن تو نہیں مگر زیادہ تر لوگ کچھ سماجی عادتوں کے بارے میں بہت پر جوش اور جوشیلے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ کو بھی کوئی ایسا جرمن ملے تو حیران نہ ہوں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
بیئر
دنیا میں صرف چیک جمہوریہ کے لوگ ہی جرمنوں سے زیادہ بیئر پیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر جرمن کو ہی بیئر اچھی لگتی ہے، مگر سماجی طور پر ایسا ہی مشہور ہے۔ اگر ایک بزرگ خاتون دوپہر کے وقت نصف لٹر بیئر پی رہی ہوں تو انہیں شرابی تصور نہیں کیا جائے گا۔ اور بیئر کے ایک جرمن شوقین کے پاس بوتل کھولنے والی چابی کے بغیر بوتل کھولنے کے کئی تخلیقی طریقے موجود ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کاغذی کارروائی
کاغذوں کو ایک ساتھ رکھنے والا ’بائنڈر‘ جرمن ایجاد ہے اور یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جرمن باشندے ریکارڈ رکھنے کے کس قدر شوقین ہیں۔ یہاں تک کہ کوئی انتہائی غیر منظم شخص بھی کسی سرکاری کام کے لیے ضروری کاغذ فوراﹰ ڈھونڈ لے گا۔ اصل میں جرمنی میں کاغذات کی ضرورت بھی آپ کے خیال سے بڑھ کر ہی پڑتی ہے۔ ڈیجیٹل ریکارڈز کے باوجود جرمن بیوروکریسی حیران کُن طور پر کاغذی ریکارڈ رکھنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: Colourbox/M. Chab
سستے داموں خریداری
جرمنی ایک ایسا ملک ہے جہاں کم داموں پر اشیاء فروخت کرنے والے اسٹور اکثر معاشرے کے تمام طبقوں کے لیے سپر مارکیٹ بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جو ہمیشہ بہترین قیمتوں پر اشیاء ضرورت کی خریداری کی تلاش میں رہتے ہیں، انہیں جرمن زبان میں ’شنَیپشن ژےگر‘‘ یعنی کم قیمتوں کے شکاریوں کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ سوچ اس قدر پختہ ہے کہ جرمنی میں ایڈورٹائزنگ کا ایک نعرہ ’گائز اِسٹ گائل‘ یعنی ’بچت سیکسی ہے‘ انتہائی مقبول ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Murat
سیر و سیاحت
اگر آپ کسی سیاحتی مقام مثلاﹰ مشرق وُسطیٰ وغیرہ میں ایسے سیاحوں سے ملتے ہیں جو ہائیکنگ کے لیے جدید اشیاء سے لیس ہوں، تو بہت ممکن ہے کہ وہ درمیانی عمر کے جرمن ہی ہوں گے۔ سفر کے شوقین جرمن ہر جگہ آپ کو ملیں گے۔ تاہم ان میں سے زیادہ تر طے شدہ عادات کے حامل ہوں گے۔ جرمنوں کی ایک پسندیدہ سیاحتی منزل اسپین کے کیناری جزائر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’شریبر گارٹن‘، باغبانی کی کالونیاں
جرمنی میں چھوٹے چھوٹے باغوں پر مشتمل کالونیاں بہت معروف ہیں۔ ملک بھر میں 1.4 ملین ’شریبر گارٹن‘ موجود ہیں۔ یہ دراصل ایسی چھوٹی کالونیاں ہوتی ہیں، جن میں لوگ باغبانی کے لیے چھوٹے چھوٹے پلاٹ کرائے پر لے لیتے ہیں۔ یہاں لوگ پھول اور پودے اگا سکتے ہیں، بار بی کیو کر سکتے ہیں اور ایسے باغیچوں کو اپنے ذاتی باغوں کی طرح سجا سکتے ہیں۔ تاہم یہ باغیچے کرائے پر لینے کے قوانین کافی سخت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
سڑکوں پر قوانین کا احترام
ایک بالغ شخص کے طور پر آپ یہ خطرہ مول لے سکتے ہیں کہ جب سڑک پر کوئی کار نہ ہو تو آپ ٹریفک کے سُرخ سگنل پر بھی سڑک پار کر لیں۔ لیکن جرمنی میں اگر آپ ایسا کریں تو حیران مت ہوں، جب کوئی چیخ کر آپ کو کہے کہ ’ابھی سگنل سُرخ ہے‘۔ عام طور پر سائیکل سوار، پیدل چلنے والے، کار ڈرائیور اور باقی تمام لوگ بھی اسے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ وہ کسی بھی سڑک پر موجود دیگر لوگوں کی تربیت کریں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
’شٹَم ٹِش‘
جرمن سماجی روایت ’شٹَم ٹِش‘ کا کوئی لغوی ترجمہ اگر ہو سکتا ہے، تو وہ ’گروہی میز‘ ہے۔ شٹَم ٹِش ابتدا میں پب یا کسی کلب میں صارفین کے لیے کسی میز کو مختص کرنے کو کہا جاتا تھا، جہاں وہ بیٹھ کر کارڈ گیمز کھیلتے یا گپ شپ اور بحث و مباحثے کرتے۔ یہ بحث تاہم زیادہ وسیع نہیں ہوتی تھی۔ شٹَم ٹِش اب مختلف گروپوں کی طرف سے باقاعدہ ملاقاتیں منظم کرنے کو بھی کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
’ٹاٹ اَورٹ‘
ہر اتوار کی شام قریب 10 ملین جرمن، ٹیلی وژن پر ’ٹاٹ اَورٹ‘ نامی ٹی وی سیریز دیکھتے ہیں۔ ٹاٹ اَورٹ کا جرمن زبان میں مطلب ہے ’جائے وقوعہ‘۔ یہ سیریز 1970ء سے مسلسل جاری ہے۔ علاقائی پبلک براڈکاسٹر باری باری اس سیریز کی مختلف قسطیں تیار کرتے ہیں، لہٰذا مختلف جرائم کی تفتیش کا عمل ہر بار کسی الگ شہر میں دکھایا جاتا ہے۔ کئی پب بھی اس سیریز کو دکھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
ہر روز کیک
’کافے اُنڈ کُوخن‘ یعنی ’کافی اور کیک‘ نامی روایت کے تحت جرمن باشندے ہر سہ پہر کیک کھا سکتے ہیں۔ اب زیادہ تر اختتام ہفتہ پر ہی اس روایت پر عمل کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کی سالگرہ ہے، تو پھر آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ اپنے کام کی جگہ پر بھی کیک لے کر جائیں۔ بچے کبھی کبھی ناشتے کا آغاز بھی کیک سے ہی کرتے ہیں اور اسکول میں کھانے کے لیے بھی اپنے ساتھ کیک ہی لے جاتے ہیں۔