1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ہم پردے کے پیچھے رہتی تھیں لیکن اب وہ بھی نہیں رہا‘

7 ستمبر 2022

سیلاب زدہ علاقوں میں خواتین اور لڑکیاں اب کھلی جگہوں پر رفع حاجت پر مجبور ہو چکی ہیں۔ چند واقعات کے بعد خواتین کے دلوں میں اب یہ بھی خوف رہتا ہے کہ کوئی مرد انہیں دیکھ لے گا۔ اس کے علاوہ بھی ایک خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔

Pakistan | Flutopfer in Fazilpur
بیماریوں اور انفیکشن کے پھیلنے کے لیے موزوں ماحول پیدا ہو رہا ہےتصویر: Arif Ali/AFP

صوبہ پنجاب میں ایک چھوٹے سے دیہی ریلوے اسٹیشن کے آس پاس کے علاقے میں درجنوں خیمے لگے ہوئے ہیں۔ فاضل پور میں ایسے چند ہی مقامات بچے ہیں، جو زیرآب نہیں آئے ورنہ ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔

یہ جگہ ڈوبی ہوئی فصلوں، بچ جانے والے کھانے کے ٹکڑوں اور کوڑے کے ساتھ ساتھ وہاں جمع ہونے والے سینکڑوں لوگوں اور مویشیوں کے فضلے کا آمیزہ بن چکی ہے اور یہاں دور سے ہی بدبو آنا شروع ہو جاتی ہے۔

اسی جگہ موجود زیب النساء بی بی نے بتایا کہ دو ہفتے قبل، جب ان کا گاؤں سیلابی پانی میں ڈوب گیا تو وہ اپنے خاندان کے ساتھ یہاں پناہ لینے پر مجبور ہو گئی تھیں۔ ان کا افسردہ انداز میں کہنا تھا، ''یہاں نہانے یا باتھ روم جانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔‘‘

پاکستان میں شہریوں کی جبری گمشدگیاں ایک بڑا مسئلہ کیوں ہیں؟

پاکستان میں شمال سے لے کر جنوب تک سیلاب زدہ علاقوں میں ایسی خیمہ بستیاں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ملک کی تاریخ کے اس بدترین سیلاب نے برطانیہ کے برابر رقبے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور 33 ملین سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں یعنی ہر ساتواں پاکستانی اس کی زد میں آیا ہے۔

خواتین کے لیے بے پناہ مسائل

ان کیمپوں میں بیت الخلاء کی کمی سب سے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ ٹوائلٹس کے نہ ہونے سے صحت کے مسائل بھی پیدا ہونے کا بھی شدید خطرہ ہے لیکن خاص طور پر  خواتین اور لڑکیوں کے لیے یہ بہت بڑی مصیبت ہے۔

پاکستان کے دیہی علاقوں میں آباد زیادہ تر لوگ قدامت پسند ہیں اور بہت سی بے گھر خواتین کو اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ اُن مردوں کے قریب رہنا پڑ رہا ہے، جو ان کے رشتہ دار نہیں ہیں۔

ان کیمپوں میں بیت الخلاء کی کمی سب سے بڑے مسائل میں سے ایک ہےتصویر: Arif Ali/AFP

دیہی علاقوں میں خواتین اور مردوں کے الگ الگ رہنے کے رواج کا حوالہ دیتے ہوئے زیب النساء کا کہنا تھا، ''ہم پردے کے پیچھے رہتے تھے لیکن خدا نے اب وہ پردہ بھی ختم کر دیا ہے۔‘‘

زیب النساء کے مطابق کھلی جگہ پر رفع حاجت کرتے وقت وہ خود کو ''بہت ہی شرمندہ محسوس‘‘ کرتی ہیں، خاص طور پر تب سے، جب وہ ایک درخت کے پیچھے تھیں اور ایک مرد چھپ کر انہیں دیکھتا پکڑا گیا تھا۔

شمیم بی بی نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا، ''میں اپنی بیٹیوں کو تنہا کہاں بھیج سکتی ہوں؟ جب ہم رفع حاجت کے لیے بیٹھتی ہیں تو ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی آدمی نہ آ جائے۔‘‘

بیماریوں کے لیے موزوں ماحول

مکھیوں اور مچھروں کے جھنڈ مصیبت میں مزید اضافہ کر رہے ہیں اور ان سے بیماریوں اور انفیکشن کے پھیلنے کے لیے موزوں ماحول پیدا ہو رہا ہے۔ سیلابی پانی میں جانے کی وجہ سے بہت سی خواتین میں چھپاکی جیسی جلد کی بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔

فاضل پور میں ایک رضار کار ڈاکٹر احسان ایاز کا کہنا ہے، ''ٹوائلٹس کے نہ ہونے کی وجہ سے جلد کی اور پیٹ کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔‘‘

شمیم اور ان کی بیٹیاں اب دن میں جتنا کم ہو سکے، اتنا کم پانی پیتی ہیں تاکہ انہیں رفع حاجت کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ اب زیادہ تر خواتین  سورج غروب ہونے کے بعد ہی کیمپ سے دور کوئی ویران جگہ تلاش کرتی ہیں تاکہ وہ اپنی فطری ضرورت پوری کر سکیں۔

'ہم 50 سال پیچھے چلے گئے‘، سیلاب اور سندھ کے کسان

اس دوران خواتین باری باری پہرہ دیتی ہیں تاکہ کوئی مرد انہیں دیکھ نہ سکے۔ شمیم کا مزید کہنا تھا، ''ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اگر کوئی مرد زبردستی ایسی ویسی حرکت کرے تو ہمیں کیا ردعمل دینا چاہیے۔‘‘    

شمیم کے مطابق اس کے علاوہ بھی ایک خطرہ ہے، ''رات کو سانپ اور بچھو بھی پانی سے باہر آ جاتے ہیں۔‘‘

ا ا / ا ب ا ( اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں