’ہم یہ کر سکتے ہیں‘ میرکل کا مہاجرین کے لیے منتر آج بھی زندہ
اے ایف پی
31 اگست 2017
مہاجرین کے بحران کے آغاز پر جرمن چانسلر میرکل نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا،’’ ہم یہ کرسکتے ہیں۔‘‘ میرکل اب یہ منتر نہیں پڑھتیں لیکن ڈی ڈبلیو کے کرسٹوف شٹراک کے مطابق یہ الفاظ جرمنی کے بارے میں اب بھی بہت کچھ بتاتے ہیں۔
اشتہار
چانسلر میرکل اپنے انتخابی جلسوں میں اپنے حامیوں کو سن دو ہزار پندرہ کے بحران سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کرتی ہیں، ’’ویسا ایک سال اب دوبارہ نہیں آ سکتا اور آنا بھی نہیں چاہیے۔‘‘ یہ بات میرکل نے حال ہی میں جرمنی کے مختلف شہروں میں جلسوں کے دوران کہی ہے۔ میرکل نے خود کو اپنی سیاسی جماعت سی ڈی یو کی سخت گیر سربراہ کے طور پر پیش کیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ آج کی چانسلر میرکل دو برس قبل کی بہادر اور دلیرانہ فیصلے لینے والی چانسلر میرکل کو دفن کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ایک دلیرانہ فیصلہ اُنہوں نے اکتیس اگست سن دو ہزار پندرہ پر بھی کیا تھا۔ ’’جرمنی ایک مضبوط ملک ہے۔ ہم نے بہت کچھ کیا ہے اور ہم یہ بھی کر سکتے ہیں۔‘‘ جرمن چانسلر کے ان الفاظ نے ہزاروں افراد کو متاثر کیا تھا۔
یہ سال پناہ کے متلاشیوں کا سال رہا
اس سے قبل کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں لوگ پناہ کی تلاش میں نہیں نکلے جتنے سال 2015ء کے دوران۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد نے جرمنی اور یورپ کا رخ کیا۔ سال رواں کے دوران دل ہلا دینے والی کچھ تصاویر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Licovski
منزل مقصود
یہ شامی نوجوانوں کا ایک گروپ ہے، جو اپنے سفر کا خطرناک ترین مرحلہ عبور کر تے ہوئے یونان پہنچا ہے۔ یورپی یونین میں داخل ہو جانے کے باوجود یہ ابھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ یہ لوگ مغربی یورپی ممالک جانا چاہتے ہیں۔ اس سال کے دوران زیادہ تر افراد نے جرمنی اور سویڈن کا رخ کیا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
بحیرہٴ روم کے ذریعے
بحیرہٴ روم کے ذریعے یورپ تک پہنچنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے برابر ہے۔ اس سفر کے دوران متعدد کشتیاں غرقاب ہو چکی ہیں۔ یہ شامی باپ اور اس کے بچے خوش قسمت تھے کہ انہیں جزیرے لیسبوس کے پاس یونانی مچھیروں کی ایک کشتی نے ڈوبنے سے بچا لیا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
دنیا کو ہلا دینے والی تصویر
تین سالہ ایلان کردی اپنے اس سفر کے دوران دنیا سے ہی ہجرت کر گیا۔ وہ اپنے بھائی اور والدہ کے ساتھ بحیرہٴ ایجیئن میں یونانی جزیرے کوس پہنچنے کی کوشش میں ڈوب گیا۔ اس کی لاش ترک علاقے بودرم کے ایک ساحل سے ملی تھی۔ یہ تصویر کچھ ہی دیر میں پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ پر جاری ہوئی اور اس نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
تصویر: Reuters/Stringer
پناہ گزین اور سیاح
پناہ کے متلاشیوں کی ایک بڑی تعداد یونان کے کوس جزیرے پر پہنچتی ہے۔ یہ علاقہ ترکی سے بہت ہی قریب ہے۔ یہاں کے ساحلوں پر عام طور پر سیاح ہوتے ہیں لیکن وقتاً فوقتاً اب مہاجرین کے مختلف گروپ بھی یہاں پہنچتے ہیں، جیسے پاکستانی شہریوں کا یہ گروپ، جسے یونان کی امدادی تنظیموں نے محفوظ طریقے سے ساحل پر پہنچایا ہے۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
افراتفری
کوس پہنچ کر بہت سارے پناہ گزینوں کی زندگی ایک طرح سے رک سی جاتی ہے۔ یہ لوگ اندراج کے بعد ہی جزیرے سے باہر جا سکتے ہیں۔ موسم گرما میں یہاں حالات اس وقت کشیدہ ہو گئے تھے، جب حکام نے پناہ گزینوں کو ایک اسٹیڈیم میں بند کر دیا تھا۔ اس دوران انہیں رجسٹریشن کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا تھا اور شدید گرمی کے باوجود انہیں پانی بھی مہیا نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
یورپی مسائل
یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر موجود پولیس کسی کو بھی آگے بڑھنے نہیں دے رہی تھی اور ان مجبور افراد میں اپنے والدین سے بچھڑنے والے بلکتے ہوئے بچے بھی شامل تھے۔ اس تصویر کو یونیسیف کی جانب سے’’سال کی اہم ترین تصویر‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ تصویر مہاجرین کے معاملے میں ایک کشمکش میں مبتلا یورپ کی عکاسی کر رہی ہے
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Licovski
کوئی پرسان حال نہیں
موسم سرما کے دوران ہنگری انتظامیہ پناہ گزینوں کے لیے اقدامات کرنے اور نسلی امتیاز کے واقعات کو روکنے میں مکمل طور پر نا اہل ثابت ہوئی۔ دارالحکومت بوڈاپیسٹ کا ریلوے اسٹیشن پناہ گزینوں کا مسکن بن گیا کیونکہ حکومت نے ان کے آگے سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے بعد بہت سے لوگ پیدل ہی جرمنی کی جانب چل پڑے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
جرمنی اور آسٹریا کا اہم اعلان
پانچ ستمبر کی رات جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور آسٹریا کے ان کے ہم منصب ویرنر فیمان کی جانب سے مشترکہ طور پر اپنی اپنی سرحدیں کھولنے کا اعلان سامنے آیا۔ اس کے ساتھ ہی پناہ گزینوں کا پیچیدہ افسر شاہی طریقہٴ کار کے بغیر سفر کرنا آسان ہو گیا۔ ان دنوں کے دوران کئی خصوصی بسین اور ٹرینیں میونخ اور ویانا پہنچتی رہیں۔
تصویر: picture alliance/landov/A. Zavallis
پناہ گزین ’خوش آمدید‘
چانسلر انگیلا میرکل کے اس اعلان کے ساتھ ہی ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزین جرمنی پہنچ گئے۔ ستمبر کے پہلے اختتام ہفتہ پر میونخ پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد تقریباً بیس ہزار رہی۔ اس موقع پر میونخ کے ریلوے اسٹیشن پر امدادی کارکنوں نے آنے والے افراد کا پرجوش انداز میں استقبال کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Stollarz
چانسلر میرکل کے ساتھ سیلفی
چانسلر میرکل کو مہاجرین سے متعلق ان کی پالیسی پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تاہم وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہیں۔ ان کا ایک بیان ’’ہم اس مسئلے پر قابو پا لیں گے‘‘ ایک نعرہ سا بن گیا۔ جرمنی میں ایک مہاجر کیمپ کے دورے کے موقع پر ایک پناہ گزین کی جانب سے چانسلر کے ساتھ یہ سیلفی تصویر کافی مقبول ہوئی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اپنی کہانی تصویر کی زبانی
ستمبر کے آخر میں جرمن پولیس کی جانب سے ایک انتہائی جذباتی تصویر جاری کی گئی۔ یہ ایک پناہ گزین بچی کی تخلیق تھی، جو اس نے پاساؤ نامی شہر کی پولیس کو بطور تحفہ پیش کی تھی۔ اس تصویر میں اس نے اس سفر کے دوران کی مشکلات بیان کی ہیں اور یہ بتایا ہے کہ وہ جرمنی پہنچنے پر کتنی خوش ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bundespolizei
سلسلہ ابھی جاری ہے
اکتوبر کے آخر تک تقریباً ساڑھے سات لاکھ افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی میں داخل ہوئے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ بلقان ممالک نے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں۔ وہ صرف شامی، عراقی اور افغانی باشندوں کو آگے جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے کچھ پناہ گزینوں نے احتجاج کے طور پر اپنے لب سی لیے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Licovski
12 تصاویر1 | 12
اگرچہ میرکل نے یہ جملہ ’ ہم یہ کر سکتے ہیں‘ صرف اپنی کلیدی تقاریر ہی میں استعمال کیا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک استعارہ بن گیا۔ اور دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ جب بھی ایسا ہوتا ہے، الفاظ اپنی اہمیت بھی جلد ہی کھو دیتے ہیں۔ سیاق و سباق میں تبدیلی آتی ہے اور وہی الفاظ طنزيہ طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ قریب ایک سال کے اندر ہی ایک موقع پر میرکل نے خود کو اس جملے سے یہ کہتے ہوئے فاصلے پر کر لیا کہ ’’اب یہ فرسودہ ہو چکا ہے۔‘‘
دو سال پہلے میرکل نے یہ جذباتی فقرہ اپنی موسم گرما کی روایتی نیوز کانفرنس میں کہا تھا۔ دو برس بعد اسی کانفرنس میں اس جملے کا میرکل کی گفتگو میں تذکرہ تک نہ تھا بلکہ اس کے برعکس میرکل نے اس کانفرنس میں تارکین وطن کے بحران سے متعلق کئی پہلوؤں پر بات کی۔ اُن کے موضوعات میں انسانی اسمگلنگ کے مجرمانہ کاروبار کی روک تھام اور مہاجرین کی تعداد محدود کرنے کے امکانات شامل تھے۔
ستمبر سن دو ہزار پندرہ کے اُن ہفتوں میں متعدد افراد کو یہ امید بھی تھی کہ جرمنی آنے والے مہاجرین کچھ ہی سالوں میں یہاں کے معاشرے میں ضم ہو جائیں گے۔ لیکن انضمام ایک دن کا کام نہیں بلکہ یہ عمل نسلوں پر محیط ہوتا ہے اور ہمیشہ دو طرفہ ہوتا ہے۔ یعنی باہر سے آنے والے بھی نئی سوسائٹی میں ضم ہونا چاہیں اور وہ معاشرہ بھی انہیں اپنے اندر سمونے کے لیے تیار ہو۔
'ہم یہ کر سکتے ہیں‘ برس ہا برس تک جرمنی کے لیے ایک حوالہ بنا رہے گا اور اس بات کا ثبوت بھی کہ اگر ضرورت ہو تو نسبتاﹰ سرد مہر جرمن قوم کے جذبات کو بھی لفظوں سے متاثر کیا جا سکتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ مستقبل میں صورت حال کیا ہو گی۔ کیا ہو اگر بالٹک ریاستوں کے باشندوں کو اچانک اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑ جائے؟ یا پھر کسی دن فوکوشیما کی طرز کا کوئی حادثہ یورپ میں کہیں رونما ہو جائے؟
دنیا میں کہیں بھی کچھ بھی ہونے کا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔ ایسے میں میرکل کا یہ جملہ کہ، ’’ویسا ایک سال اب دوبارہ نہیں آ سکتا اور آنا بھی نہیں چاہیے۔‘‘ ایک خواہش زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ اور ’ہم یہ کر سکتے ہیں‘ جوش قائم رکھنے والا ایک اہم نعرہ بن گیا ہے۔