ہندوتوا نظریے کا فروغ، جدید سائنس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے!
21 جون 2021جی ہاں میں بات کر رہی ہوں بھارت کی، جس کی موجودہ قیادت وشوا گرو یعنی امام عالم بننے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ جہاں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے برصغیر کی تاریخ کو حکمراں گروہ کے ہندوتوا نظریے کے مطابق ڈھالنے اور جدید سائنس کی تحقیر اور اس کی اہمیت کم کرنے کی مسلسل کوشش ہو رہی ہیں۔ نئی تعلیمی نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2020 کے اطلاق نے تو ان کوششوں کو ایک طرح سے لائسنس فراہم کر دیا ہے۔
دنیا بھر میں تعلیم سے متعلق پالیسیاں معاشی خوشحالی، مثالی شہری بنانے نیز سائنسی مزاج پیدا کرنے کی بنیاد پر استوار کی جاتی ہیں۔ تاہم بھارت میں اس کا محور 'پراچین سبھیتا‘ یعنی قدیم تہذیب اور قدیم علوم ہیں۔ کورونا مرض کے علاج کے حوالے سے یوگا اور قدیم طریقہ علاج کے پوسٹر بوائے بابا رام دیو اور انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے درمیان جاری بالا دستی کی جنگ کو اسی تناظر میں دیکھاجانا چاہیے۔ اسی طرح حکمران جماعت کے بعض ارکان پارلیمان اور اسمبلی کھلے عام گائے کے پیشاب سے علاج کی تلقین کر رہے ہیں۔ بی جے پی کی رکن پارلیمان پرگیہ ٹھاکر کا آئے دن اس بارے میں بیان آتا رہتا ہے۔
جدید سائنس کا کس طرح مذاق اڑایا جا رہا ہے، میں اس کی یہاں ایک واضح مثال کے طور پر خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی اس تقریر کے ایک اقتباس کو نقل کر تی ہوں، جو انہوں نے انڈین سائنس کانگریس کے 2019 کے سالانہ اجلاس کا افتتاح کرتے وقت کی تھی۔ وزیراعظم مودی کا کہنا تھا، ’’نیوٹن نے قوت کشش ثقل کو صحیح طور پر نہیں سمجھا، البرٹ آئن سٹائن نے دنیا کو گمراہ کیا، بھارت نے ہزاروں سال پہلے ٹیسٹ ٹیوب بی بی اور پلاسٹک سرجری ایجاد کی تھی۔"
بھارت کے قومی تعلیمی ادارے این سی ای آر ٹی اور صوبائی تعلیمی بورڈز کے تعلیمی نصابوں میں ایسا مواد شامل کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں ایک مخصوص فرقے اور ایک ہمسایہ ملک کے خلاف نفرت پیدا ہونا فطری عمل ہے۔ بطور مثال گجرات میں آٹھویں کلاس کی تاریخ میں درج ہے کہ دہلی کا قطب مینار ہندو بادشاہ سمندر گپت نے تعمیر کیا اور اس کا اصل نام ویشنو استھمب تھا۔
اسی طرح تاج محل اور مسلم ادوار حکومت کی دیگر عمارتوں کے بارے میں اسی نوع کی بے بنیاد باتیں پھیلائی گئی ہیں اور جاری ہیں۔ مثلاً جنوبی بھارت کے صوبہ کرناٹک میں ایک نصابی کتاب میں گائے کا تقدس بڑھانے کے حوالے سے ایک عجیب و غریب واقعہ شامل ہے، جس میں ایک شیر اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ آئندہ کبھی گائے کا گوشت نہیں کھائے گا۔
جواہر لعل یونیورسٹی کے سابق استاد اور ممتاز تاریخ داں پروفیسر ڈی این جھا، جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے، نے اپنی کتاب قدیم ہند میں کھانے کی عادات پر مفصل لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے ہندو مقدس کتابوں کے حوالے سے اس بات کو اجاگر کیا کہ ''ویدک دھرم میں گائے کو ذبح کرنا ممنوع نہیں تھا اور گائے کے گوشت سے مہمانوں کی تواضع کرنے کو توقیر کی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا۔‘‘ انہوں نے لکھا کہ گائے کے گوشت پر پابندی لگانی ہے تو تمام مقدس کتابوں سے پرانے مواد کو ہٹانا پڑے گا۔
تاہم اس وقت بھارت کے بیشتر صوبوں میں نہ صر ف گائے کے ذبح پر پابندی ہے بلکہ اسے ایک سنگین جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ ہے کہ گائے کے گوشت کے شبے میں اب تک ماب لنچنگ کے تقریبا تین سو واقعات رونما ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
مزید برآں یہ کہ بھارتی حکمراں جماعت کی سرپرست آر ایس ایس کے تحت چلنے والے چھ ہزار سے زائد اسکولوں میں، جو سرکاری امداد پر چلتے ہیں، معصوم ذہنوں کو مسموم کیا جاتا ہے۔ نیز ششو مندروں (بچوں کے اسکولوں) کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔ ان میں کیا پڑھایا جاتا ہے وہ ملاحظہ کریں، ''بر صغیر میں مسلمان بادشاہوں کا مقصد ہندوؤں کی نسل کو ختم کرنا تھا۔ افغانستان میں تمام ہندو قتل کر دیے گئے تھے۔ دکن کی سلطنت نے ہر سال ایک لاکھ ہندوؤں کو قتل کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا"۔
بھارت کے ممتاز مورخین اور دانشوران ایک عرصے سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ تعلیمی نصاب اور تاریخ کی کتب سے زہریلے مواد کی تطہیر کے لیے ایک نیشنل کمیشن قائم کیا جائے۔ تاہم نئی قومی تعلیمی پالیسی اس پر خاموش ہے۔ بلکہ اس میں پورے تعلیمی نظام کو حکمراں جماعت کے نظریے کا جامہ پہنانے کا انتظام کیا گیا ہے۔
اس وقت بھارت میں مذہبی منافرت پر مبنی سیاست اور نفرت کی بنیاد پر ظلم و تشدد کے واقعات میں جو تشویشناک اضافہ ہو رہا ہے اس کا سدباب اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ نظام تعلیم کو فرقہ وارانہ آلائشوں سے پاک کیا جائے۔
جہاں تک سائنٹفک مزاج کا معاملہ ہے، تو وہ ہندوتوا کے نظریے کو اندھا دھند طریقے سے فروغ دینے کے نتیجے میں بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ ہندوتوا کے نظریے کو نہ روکا گیا تو نئی نسل کے مزاج کو دوبارہ سائنس کی جانب راغب کرنے میں برسوں لگ جائیں گے۔