ہندو۔ مسلم فسادت میں جنسی زیادتی کے واقعات
10 اکتوبر 2013جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی بعض خواتین اور ان کے خاندان بدنامی کے خوف سے خاموش رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ فاطمہ کا تعلق بھی ایسے ہی ایک متاثرہ خاندان سے ہے جو اس وقت ضلع مظفر نگر کے علاقے مَلک پور میں ایک امدادی کیمپ میں رہائش پذیر ہے۔
فاطمہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سےبات چیت میں بتایا کہ سات ستمبر کو شروع ہونے والے تین روزہ فسادات کے دوران چھ افراد ان کے گھر میں گھُس گئے تھے۔ وہ درانتیاں اور تلواریں لیے ہوئے تھے۔ فاطمہ کا کہنا ہے کہ مسلح افراد نے انہیں ایک کرسی پر باندھ دیا اور ان کے سامنے ان کی 17سالہ بیٹی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
وہ کہتی ہیں کہ اگر ان کی بیٹی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعے کی بات پھیل گئی تو کون اس سے شادی کرے گا۔ انہوں نے کہا: ’’اسے بدچلن قرار دے دیا جائے گا اور ہماری اپنی برادری ہمیں باہر نکال پھینکے گی۔‘‘
ایک 19سالہ لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ اسکوٹر پر اپنے دادا کے ساتھ فساد زدہ علاقے سے فرار ہو رہی تھی جب چھ افراد نے انہیں روکا۔ اس لڑکی نے بتایا کہ وہ اسے قریبی گنے کے کھیت میں لے گئے اور چھ گھنٹے تک زیادتی کا نشانہ بنایا۔ بعدازاں گشت پر مامور فوج کے ایک دستے نے اس کی جان بچائی۔
مَلک پور کے کیمپ میں رہائش پذیر فاطمہ اور دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کبھی اپنے گھروں کو نہیں لوٹیں گے۔ اے ایف پی کے مطابق مظفرنگر کے فسادات میں ایسے کئی واقعات پیش آئے۔ تاہم پولیس نے ان فسادات کے نتیجے میں مجرمانہ نوعیت کے جو 280 مقدمات درج کیے ان میں محض پانچ جنسی تشدد سے متعلق تھے۔
ایک وکیل نوشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ خواتین انتقامی کارروائیوں کے خوف کے ساتھ ساتھ پولیس اور عدلیہ پر بھروسہ نہ ہونے کی وجہ سے بھی ایسے معاملات رپورٹ کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’’انتہائی محتاط اندازے کے باوجود ، صرف اجتماعی جنسی زیادتی کے کم از کم 50 واقعات پیش آئے ہوں گے۔‘‘
انسانی حقوق کے ایک گروپ آل انڈیا ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کی صہبا فاروقی کہتی ہیں: ’’جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی بعض خواتین نے جرأت کا مظاہرہ کیا اور پولیس تک پہنچیں۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ حملہ آوروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تو اس سے دیگر خواتین کے حوصلے بھی ٹوٹے۔‘‘
جنوبی ایشیا کے لیے ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کہتی ہیں: ’’اتر پردیش کی حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ایسا ماحول پیدا کرے جس میں زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین انصاف کے لیے سامنے آ سکیں۔‘‘
مظفرنگر کے فسادت کے حوالے سے پولیس نے اب تک تقریباﹰ ڈیڑھ سو افراد کو گرفتار کیا ہے۔ ان میں چار سیاستدان بھی شامل ہیں جن پر مشتعل ہجوم کو اکسانے کا الزام ہے۔