ہندو میرج ایکٹ بل کب منظور ہوگا؟ یہ وہ سوال آج کل خیبر پختونخوا کی اقلیتی برادری کی زبان پر ہے۔ پنجاب میں ایسا ہی قانون منظور ہو چکا ہے۔
اشتہار
خیبر پختونخوا بالخصوص پشاور میں سکھ اور ہندو برادری کی بڑی تعداد آباد ہے۔ اپنی مخصوص شناخت اور ثقافت اپنے اندر سموئے ہوئے یہ خاندان ملکی ترقی کے لیے اپنی استعداد سے بڑھ کر کوشاں ہیں۔
ایسے میں ریاست کی بھی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان اقلیتوں کو بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں۔ مثال کے طور پر ایک مسئلہ ایسا ہے جو بظاہر دوسرے حلقوں کے لیے کوئی اہمیت نہ رکھتا ہو مگر ہندو اور سکھ برادری کے لیے یہ مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔
یہ آج سے دو سال پرانی بات ہے جب میں اور شالیم شادی کے بندھن میں بندھے۔ نئی زندگی کا آغاز ہوا۔ لیکن اس وقت مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ مجھے اپنے شناختی کارڈ میں والد سے شوہر کا نام تبدیل کروانے میں کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ مسائل اس وجہ سے پیدا ہوئے کیونکہ خیبر پختونخوا میں ہندو اور سکھ شادی شدہ جوڑوں کی رجسٹریشن کرانے کے لیے کوئی مربوط نظام ہی موجود نہیں۔ مجھے بھی یہ شادی کے بعد ہی معلوم ہوا۔
من میت کور پاکستان میں واحد سکھ خاتون صحافی ہیں۔
04:14
گرودوارے کے گرنتی یا مندر کے پنڈت کے علاوہ دو گواہان کی گواہی کے بعد کہیں جا کر شادی شدہ جوڑے کی شادی رجسٹرڈ ہوتی ہے۔ جس کے لیے بھی کئی مراحل طے کرنا پڑتے ہیں اور خوب دوڑ لگانا پڑتی ہے۔ بہرحال یہ مسئلہ یقینی طور پر توجہ طلب ہے۔
خیبر پختونخوا کی نسبت پنجاب کی صورتحال کافی بہتری کی جانب جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ اب پنجاب اسمبلی سے سکھ رکن رامیش سنگھ اروڑا نے ہندو میرج ایکٹ بل منظو ر کروا لیا ہے، جس کے بعد ہندو اور سکھ شادی شدہ جوڑوں کی رجسٹریشن کا مرحلہ آسان ہو جائے گا۔
پنجاب کے بعد اب خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں بھی ہندو میرج ایکٹ کی منظوری کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ امید ہے جلد اس ایکٹ پر کام ہوگا اور انند کاریج میرج کے نفاذ سے مستقبل میں نئے جوڑوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی۔
یوں ان اقلیتوں کو مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جیسا کہ مجھے اور میرے شوہر شالم کو کرنا پڑا۔ اسی طرح دیگر جوڑوں کے لیے بھی ایسے ہی مسائل رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کب اقلیتی برادری کو بڑا ریلیف دیتی ہے۔
اقلیتوں کے حقوق، پاکستان بدل رہا ہے
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے اکثر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ تاہم حالیہ کچھ عرصے میں یہاں اقلیتوں کی بہبود سے متعلق چند ایسے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان بدل رہا ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
ہندو میرج ایکٹ
سن 2016 میں پاکستان میں ہندو میرج ایکٹ منظور کیا گیا جس کے تحت ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہریوں کی شادیوں کی رجسٹریشن کا آغاز ہوا۔ اس قانون کی منظوری کے بعد مذہب کی جبری تبدیلی اور بچپنے میں کی جانے والی شادیوں کی روک تھام بھی ہو سکے گی۔
تصویر: DW/U. Fatima
غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون
پاکستان میں ہر سال غیرت کے نام پر قتل کے متعدد واقعات سامنے آتے ہیں۔ سن 2016 میں پاکستانی ماڈل قندیل بلوچ کو اُس کے بھائی نے مبینہ طور پر عزت کے نام پر قتل کر دیا تھا۔ قندیل بلوچ کے قتل کے بعد پاکستانی حکومت نے خواتین کے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون منظور کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PPI
ہولی اور دیوالی
پاکستانی وزیرِ اعظم نواز شریف نے حال ہی کراچی میں میں ہندوؤں کے تہوار میں شرکت کی اور اقلیتوں کے مساوی حقوق کی بات کی۔ تاہم پاکستان میں جماعت الدعوہ اور چند دیگر تنظیموں کی رائے میں نواز شریف ایسا صرف بھارت کو خوش کرنے کی غرض سے کر رہے ہیں۔
تصویر: AP
خوشیاں اور غم مشترک
کراچی میں دیوالی کے موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے سب شہریوں کو ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہونا چاہیے اور ایک دوسرے کی مدد کرنا چاہیے۔
تصویر: Reuters
کرسمس امن ٹرین
حکومت پاکستان نے گزشتہ کرسمس کو پاکستانی مسیحیوں کے ساتھ مل کر خاص انداز سے منایا۔ سن 2016 بائیس دسمبر کو ایک سجی سجائی ’’کرسمس امن ٹرین‘‘ کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے مسیحی برادری کے ساتھ ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کے پیغام کے طور پر روانہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Naveed
کئی برس بعد۔۔۔
اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کو پاکستان کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کے نام معنون کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کا تعلق احمدی فرقے سے تھا جسے پاکستان میں مسلمان نہیں سمجھا جاتا۔ فزکس کے اس پروفیسر کو نوبل انعام سن 1979 میں دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پاکستان میں سکھ اقلیت
پاکستان میں سکھ مذہب کے پیرو کاروں کی تعداد بمشکل چھ ہزار ہے تاہم یہ چھوٹی سی اقلیت اب یہاں اپنی شناخت بنا رہی ہے۔ سکھ نہ صرف پاکستانی فوج کا حصہ بن رہے ہیں بلکہ کھیلوں میں بھی نام پیدا کر رہے ہیں۔ مہندر پال پاکستان کے پہلے ابھرتے سکھ کرکٹر ہیں جو لاہور کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں کرکٹ کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔