1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہندو میرج ایکٹ بل کب منظور ہوگا؟

من میت کور
23 اکتوبر 2020

ہندو میرج ایکٹ بل کب منظور ہوگا؟ یہ وہ سوال آج کل خیبر پختونخوا کی اقلیتی برادری کی زبان پر ہے۔ پنجاب میں ایسا ہی قانون منظور ہو چکا ہے۔

Pakistan | Bloggerin | Manmeet Kour
تصویر: privat

خیبر پختونخوا بالخصوص پشاور میں سکھ اور ہندو برادری کی بڑی تعداد آباد ہے۔ اپنی مخصوص شناخت اور ثقافت اپنے اندر سموئے ہوئے یہ خاندان ملکی ترقی کے لیے اپنی استعداد سے بڑھ کر کوشاں ہیں۔

ایسے میں ریاست کی بھی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان اقلیتوں کو بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کیے جائیں۔ مثال کے طور پر ایک مسئلہ ایسا ہے جو بظاہر دوسرے حلقوں کے لیے کوئی اہمیت نہ رکھتا ہو مگر ہندو اور سکھ برادری کے لیے یہ مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستانی ہندو اقلیت: شادیوں کےاندراج کے قانون کا مطالبہ

یہ آج سے دو سال پرانی بات ہے جب میں اور شالیم شادی کے بندھن میں بندھے۔ نئی زندگی کا آغاز ہوا۔ لیکن اس وقت مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ مجھے اپنے شناختی کارڈ میں والد سے شوہر کا نام تبدیل کروانے میں کتنے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ مسائل اس وجہ سے پیدا ہوئے کیونکہ خیبر پختونخوا میں ہندو اور سکھ شادی شدہ جوڑوں کی رجسٹریشن کرانے کے لیے کوئی مربوط نظام ہی موجود نہیں۔ مجھے بھی یہ شادی کے بعد ہی معلوم ہوا۔

من میت کور پاکستان میں واحد سکھ خاتون صحافی ہیں۔

04:14

This browser does not support the video element.

گرودوارے کے گرنتی یا مندر کے پنڈت کے علاوہ دو گواہان کی گواہی کے بعد کہیں جا کر شادی شدہ جوڑے کی شادی رجسٹرڈ ہوتی ہے۔ جس کے لیے بھی کئی مراحل طے کرنا پڑتے ہیں اور خوب دوڑ لگانا پڑتی ہے۔ بہرحال یہ مسئلہ یقینی طور پر توجہ طلب ہے۔

خیبر پختونخوا کی نسبت پنجاب کی صورتحال کافی بہتری کی جانب جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ اب پنجاب اسمبلی سے سکھ رکن رامیش سنگھ اروڑا نے ہندو میرج ایکٹ بل منظو ر کروا لیا ہے، جس کے بعد ہندو اور سکھ شادی شدہ جوڑوں کی رجسٹریشن کا مرحلہ آسان ہو جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے: پاکستانی اقلیتیں مشکل حالات سے دوچار

پنجاب کے بعد اب خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں بھی ہندو میرج ایکٹ کی منظوری کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ امید ہے جلد اس ایکٹ پر کام ہوگا اور انند کاریج میرج کے نفاذ سے مستقبل میں نئے جوڑوں کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی۔

یوں ان اقلیتوں کو مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جیسا کہ مجھے اور میرے شوہر شالم کو کرنا پڑا۔ اسی طرح دیگر جوڑوں کے لیے بھی ایسے ہی مسائل رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کب اقلیتی برادری کو بڑا ریلیف دیتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں