ہنسنے، مسکرانے سے ذہنی الجھنوں میں کمی
10 مئی 2011جسم اور روح ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی سے کام کرتے ہیں اور یہ دونوں ایک دوسرے پر گہرے اثرات بھی مرتب کرتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کی بھی حالت ناساز ہو تو دوسرا ٹھیک نہیں رہ سکتا۔
جھکے ہوئے شانے، طبعیت کی ناسازی یا خراب موڈ کی علامت ہوتے ہیں۔ اسی طرح ذہنی یا نفسیاتی الجھنیں اکثر معدے کی خرابی کا سبب بنتی ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر ہمیں کوئی چیز یا کسی کی کوئی بات ناگوار گزرتی ہے اور ہم اُس کا کھل کر اظہار نہیں کر پاتے تو، ہمارے جسم کا کوئی نا کوئی حصہ اس کا رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً یا تو معدے کا درد یا نزلے کی سی کیفیت نظر آنے لگتی ہے۔ اسی طرح شدید خوف کی کیفیت میں اکثر لوگوں کو سانس کی تکلیف شروع ہو جاتی ہے۔
جرمن خاتون ماہر نفسیات ڈورس وولف کے مطابق ’جب بھی ہم کوئی عمل شروع کرتے ہیں، اس کا اثر ہمارے جسم اور ہمارے مزاج یا موڈ پر پڑتا ہے۔ جب ہم کسی عمل کا ارادہ کرتے ہے تو ہمارا جسم ذہن کوایک خاص ہورمون یھیجتا ہے، جو جسمانی حرکت میں تیزی پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح درد بھی انسانی جسم یا کسی عضو کی متحرک یا ساکن حالت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انسان کی جسمانی اور ذہنی کیفیت کا اندازہ اُس کے چہرے پر پائے جانے والے تاثر سے ہوتا ہے۔
جرمنی کی Deister Weser Clinic کے ماہر نفسیات اور ڈائریکٹر ڈیٹر پوئٹس کہتے ہیں ’یہ ایک نہایت آسان تجربہ ہے۔ آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہوں اور بھرپور طریقے سے مسکرائیں۔ بلکہ بہتر ہوگا کہ آپ مُنہ کھول کر ہنسیں تاکہ آپ کے دانت نظر آئیں۔ چند لمحوں کے اندر آپ محسوس کریں گے کہ آپ کا موڈ اچھا ہو گیا ہے۔ آپ کی طبعیت پر اس کے خوشگوار اثرات مرتب ہوئے ہیں‘۔
جرمن ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ مسکرانا یا ہنسنا جسم اور روح دونوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اسی طرح خاص قسم کی جسمانی حرکت انسان کو نفسیاتی طور پر اچھا یا بُرا محسوس ہونےکا موجب بنتی ہے۔ مثلاً شانے جھکائے اور سر کو نیچے کیے ہوئے رہنا، ذہنی صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔ اس سے احساس خود اعتمادی میں کمی آتی ہے۔
جرمن خاتون ماہر نفسیات ڈورس وولف نے اس بارے میں جو کتاب تصنیف کی ہے اُس کا انگریزی ترجمہ ہے "Understand Feelings, conquer Problems"۔
اس کتاب میں ڈورس وولف نے یہی واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ جسم اور روح ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ توازن قائم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ انسان اپنے موڈ یا طبعیت کو بہتر بنانے کے لیے اور اچھا محسوس کرنے کے لیے انداز نشست و برخاست سے لے کر چلنے پھرنے کے انداز تک کی مدد لے سکتا ہے۔
ایک اور جرمن ماہر نفسیات میشائیل شلبرگ کا کہنا ہے کہ طویل المیعاد روحانی یا ذہنی خوشی اور تروتازگی کے احساس کے لیے سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جسم کی کوئی نا کوئی سرگرمی جاری رکھی جائے۔
جرمن ماہرین نفسیات کے مطابق ذہنی دباؤ کے شکار مریضوں کے علاج میں ڈاکٹروں کو ادویات سے زیادہ جسمانی سرگرمیوں اور ورزش وغیرہ کا استعمال کرنا چاہیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چہل قدمی تیراکی، سائیکل سواری اور دیگر جسمانی حرکت بہت سے ذہنی امراض کا بہترین علاج ثابت ہوتی ہے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امتیاز احمد