ہنگری: تارکین وطن مخالف بِل دوبارہ پیش نہیں کیا جائے گا
صائمہ حیدر
11 نومبر 2016
ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی آباد کاری پر پابندی عائد کرنے کا بِل ہنگیرین پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے دوبارہ پیش نہیں کیا جائے گا۔
تصویر: Reuters
اشتہار
ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹور اوربان نے یہ بات آج بروزِ جمعہ سرکاری ریڈیو پر ایک انٹرویو میں کہی۔ وزیرِ اعظم اوربان کا کہنا تھا کہ رواں ہفتے پارلیمنٹ کی جانب سے ملک میں مہاجرین کی آباد کاری پر پابندی کا مجّوزہ قانون مسترد ہونے کے بعد اِسے دوبارہ پیش نہیں کیا جائے گا۔
اوربان نے مزید کہا،’’ ہم نے اس مجّوزہ بِل کو آئین کا حصہ بنانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے کیونکہ ہنگری کی حزبِ اختلاف مہاجرین کے بحران کے حوالے سے برسلز کا ساتھ دے رہی ہے۔ چونکہ آئین میں ترمیم نہیں کی جا سکی لہذٰا نتیجے کے طور پر ہماری حکومت کو موجودہ آئین کی حدود میں رہتے ہوئے ہی مہاجرین کی آباد کاری کے حوالے سے یورپی یونین کے کوٹا سسٹم منصوبے کے خلاف جد وجہد جاری رکھنی ہو گی۔‘‘
خیال رہے کہ رواں ماہ کی آٹھ تاریخ کو ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹور اوربان کی جانب سے ملکی پارلیمنٹ میں مہاجرین کی آبادکاری پر ایک آئینی ترمیم کے ذریعے پابندی عائد کرنے کا منصوبہ ناکام ہو گیا تھا۔ مجوزہ آئینی ترمیم کو ہنگری کی پارلیمنٹ کی کُل ایک سو نناوے نشستوں میں سے ایک سو اکتیس ووٹ حاصل ہوئے۔ پینسٹھ اعشاریہ ساٹھ فیصد اُس مطلوبہ دو تہائی فیصد سے ذرا سی ہی کم ہے جو قانون میں تبدیلی کے لیے درکار تھی۔ ہنگری کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے رائے شماری کا بائیکاٹ کیا تھا۔
ہنگری میں جرمنی جانے کے منتظر مہاجرین
ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر پڑے ہوئے مہاجرین دو روز تک بے خبر رہے کہ آگے اُن پر کیا بیتے گی۔ ٹکٹ اُن کے پاس تھے لیکن سفر کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ جب اجازت ملی تو انہیں ایک کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
کھلے آسمان کے نیچے
بہت سے مہاجرین نے ایسٹرن ریلوے اسٹیشن کے سامنے واقع جگہ پر ہی رات کو ڈیرے لگا لیے۔ ان لمحات میں اُنہیں بالکل نہیں پتہ تھا کہ آگے کیا ہو گا، کہیں جانے کی اجازت ملے گی بھی یا نہیں اور ملے گی بھی تو کب۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
’عارضی قیام کی جگہ‘
پولیس نے اس جگہ کو ’ٹرانزٹ زون‘ قرار دے دیا۔ یہ اور بات کہ ان حالات کو کسی صورت ٹرانزٹ کا نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ مہاجرین کو حکام کی طرف سے کافی دیر تک کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
آگے سفر کا انتظار
کئی ایک مہاجرین کو آگے مغربی یورپ کی جانب سفر کا انتظار کرتے کرتے دو روز ہو گئے ہیں۔ اُن کی الجھن بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
پولیس کی کارروائی کے خلاف احتجاج
قبل از دوپہر ریلوے اسٹیشن کے سامنے والی جگہ پر حالات قابو سے باہر ہوتے دکھائی دینے لگے۔ مہاجرین نے بلند آواز میں ہنگری کی پولیس کی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
ریلوے اسٹیشن پر تالے پڑے رہے
صورتِ حال پر قابو پانے اور مہاجرین کو ریلوے اسٹیشن سے باہر ہی رکھنے کے لیے مزید پولیس بھیجی جاتی رہی اور پولیس کی نفری میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
امید کی کرن
پھر اچانک مہاجرین کو ریلوے پلیٹ فارم تک جانے کی اجازت دے دی گئی۔ مہاجرین کو بتایا گیا کہ ایک ریل گاڑی اُنہیں آگے مغربی یورپ تک لے کر جائے گی۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
ریل پر چڑھنے کے لیے دھکم پیل
سینکڑوں مہاجرین نے ریلوے اسٹیشن کے مرکزی ہال پر ایک طرح سے دھاوا بول دیا۔ ہر ایک کی کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح مغرب کو جانے والی ریل گاڑی پر سوار ہو جائے۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
اور بالآخر سفر شروع ہوا
ریل پر جگہ پانے والے تمام مہاجرین کا خیال یہ تھا کہ اب بالآخر اُنہیں ہنگری سے نکلنے اور اپنی پسند کے کسی یورپی ملک میں جانے کا موقع مل رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کی خواہش تھی کہ وہ جرمنی جائیں۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
جو پیچھے رہ گئے
ریل گاڑی پر سبھی مہاجرین سوار نہ ہو سکے۔ جو بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر ہی پڑے رہ گئے، اُن کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ تھی۔ ان لوگوں کو بہت بعد میں پتہ چلا کہ اگر وہ واقعی ریل پر چڑھنے میں کامیاب ہو جاتے تو کہاں پہنچ چکے ہوتے۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
ریل گاڑی کہیں اور جا پہنچی
جمعرات کو قبل از دوپہر دراصل ہوا یہ تھا کہ بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن سے روانہ ہونے والی ریل گاڑی کو شہر سے نکلنے کے تھوڑی ہی دیر بعد روک دیا گیا اور مہاجرین کو اترنے پر مجبور کر دیا گیا۔ اُنہیں ہنگری کے ایک مہاجر کیمپ میں پہنچا دیا گیا تاکہ وہاں اُن کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جا سکے۔
تصویر: DW/L. Scholtyssyk
گہری بداعتمادی
بوڈاپیسٹ کے ریلوے اسٹیشن پر پڑے رہ جانے والے مہاجرین میں افغانستان کا شریفی بھی ہے، جس کے ساتھ اُس کی ایک سالہ بیٹی مہیبہ بھی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اب اُسے ہنگری کے حکام پر کوئی اعتبار نہیں رہا۔