ہنگری: دستور میں تبدیلی کے خلاف احتجاج
18 مارچ 2013وسطی یورپی ملک ہنگری کی پارلیمنٹ میں وزیراعظم وکٹور اوربان کی سینٹر رائٹ پارٹی فیڈیس (Fidesz) کو بھاری اکثریت حاصل ہے۔ پارلیمنٹ نے گزشتہ ہفتے کے دوران اعلیٰ دستوری عدالت کے اختیارات کو محدود کرنے کے مسودہٴ قانون کی منظوری دے دی تھی۔ اس دستوری بل کے خلاف اندرون ہنگری احتجاج اور بیرونی دنیا سے تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ تحفظات کا اظہار کرنے والوں میں امریکا اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ ان کے مطابق اس تبدیلی سے جمہوریت اور جمہوری اقدار کو محدود کیا جا سکے گا۔
ہنگری کے وزیراعظم وکٹور اوربان نے اندرونِ ملک احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ساتھ بیرونی دنیا سے سامنے آنے والے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دستور میں لائی جانے والی تبدیلیاں قطعاً غیر جمہوری رویے کی عکاس نہیں ہیں۔ اوربان کا اس مناسبت سے یہ بھی کہنا تھا کہ دستوری تبدیلیاں کسی بھی طرح یورپی یونین کے طے کردہ قواعد و ضوابط کے منافی نہیں ہیں۔
اتوار کے روز ہنگری کے دارالحکومت میں شدید سردی تھی اور اس منجمد کر دینے والے موسم میں بھی ہزاروں افراد نے حکومت کی جانب سے ملکی آئین میں لائی جانے والی تبدیلیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے سابق محتسب اور اپوزیشن لیڈر لازلو مژتنی (Laszlo Majtenyi) کا کہنا تھا کہ اس وقت ہنگری میں کوئی ڈکٹیٹر موجود نہیں لیکن اس منصب کے لیے ایک شخص خواہشمند ضرور ہے۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک خاتون لیڈر گریٹا ژوساز ( Juhasz Greta) کا کہنا تھا کہ اوربان حکومت نے عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا اور یہ حکومت اقتصادیات کے حوالے سے بھی ریلیف دینے میں ناکام رہی ہے لہذا اس کا اقتدار میں رہنا اب کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔
انسانی حقوق کے سرگرم گروپوں نے حکومت کے اس عمل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ دستور میں لائی جانے والی تبدیلیاں بنیادی طور پر دستوری عدالت کے ان اختیارات کو کنٹرول کرنے کے لیے ہیں، جن سے وہ حکومتی اقدامات کو غلط اور نامناسب قرار دے سکتی تھی۔ دستور میں لائی جانے والی ترمیم کے مطابق اعلیٰ آئینی عدالت کسی بھی حکومتی اقدام پر نظرثانی کرتے ہوئے اس کے صرف عملی پہلو پر غور توکر سکے گی لیکن وہ اصل متن کے منافی کوئی فیصلہ دینے کی مجاز نہیں ہو گی۔ دستوری ترمیم کے تحت سن 2012 سے پہلے کے عدالتی فیصلے نفاذ کی قوت سے بھی محروم ہو گئے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والے بعض یورپی اداروں نے دستوری ترمیم کے حوالے سے اوربان حکومت کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا تھا۔ ان اداروں میں کونسل آف یورپ خاص طور پر اہم ہے۔ جمعرات کے روز یورپی کمیشن کے صدر یوزے مانویل بارروسو نے وزیراعظم وکٹور اوربان کے ساتھ میٹنگ میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ایسا خیال کیا گیا ہے کہ یورپی یونین جلد ہی دستوری تبدیلیوں کا جائزہ لے کر اپنے ردعمل کا اعلان کرے گی۔
(ah/at(Reuters