اقوام متحدہ کے مطابق یورپی ملک ہنگری میں اُن مہاجرین کو پانچ دن تک بھوکا رکھا جاتا ہے، جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ اقوم متحدہ کے مطابق یہ بین الاقوامی قانون کی صریحاﹰ خلاف ورزی ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے مطابق ہنگری کی حکومت دانستہ طور پر اُن پناہ گزینوں کو خوراک فراہم کرنے سے انکار کر رہی ہے، جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ میں ادارہ برائے انسانی حقوق کی ایک ترجمان راوینا شمداسنی کا جمعے کے روز کہنا تھا، ’’موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق ہنگری حکام کی جانب سے اگست دو ہزار اٹھارہ کے بعد سے ایسے اکیس مہاجرین کو خوراک فراہم کرنے سے انکار کیا گیا، جو ملک سے بے دخلی کا انتظار کر رہے تھے۔‘‘
گزشتہ ستمبر میں بھی ہیومن رائٹس کے ہائی کمیشن نے ہنگری حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ان مہاجرین تک غذا کی فراہمی روک رہا ہے، جو سربیا کی سرحد کے ساتھ ٹرانزٹ زون میں پھنسے ہوئے ہیں۔
انتباہی پیغامات نظرانداز
اقوام کے انسانی حقوق کے ادارے کے مطابق یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے ایک عارضی فیصلے کے بعد ہنگری حکام نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس پریکٹس کو ختم کر دیں گے۔ تاہم راوینا شمداسنی کا کہنا ہے، ’’ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ لیگل فریم فرک میں کوئی واضح تبدیلی نہیں لائی گئی۔ رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ مشق ابھی تک جاری ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کی اس ہلکار کے مطابق اگر ایک مرتبہ سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو جاتی ہے، تو حاملہ خواتین کے علاوہ تمام بالغ مہاجرین کو دانستہ طور پر خوراک فراہم نہیں کی جاتی۔
ہم ’ذمہ دار نہیں‘ ہیں، ہنگری
رواں ہفتے کے آغاز میں ہنگری کی حکومت کا ایک بلاگ پوسٹ میں کہنا تھا، ’’ہمارا موقف یہ ہے کہ ہنگری ان کا ذمہ دار نہیں ہے، جنہوں نے پناہ کی درخواستیں نہیں دیں اور نہ ہی ان کا ذمہ دار ہے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔‘‘
ہنگری کے دائیں بازو کے وزیراعظم وکٹور اوربان کا شمار یورپ کے ان رہنماؤں میں ہوتا ہے، جو یورپی یونین میں مہاجرین کی آمد کے خلاف ہیں۔ یہ مہاجرین کی آمد کو ایک ’حملہ‘ اور ’زہر‘ بھی قرار دے چکے ہیں۔
ہنگری حکومت یہ بھی متعدد مرتبہ کہہ چکی ہے کہ جن مہاجرین کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں، انہیں گرفتار نہیں کیا گیا اور وہ سرحد عبور کرتے ہوئے سربیا جانے کے لیے آزاد ہیں۔ لیکن اقوام متحدہ کے حکام اس کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ غیرقانونی ہے کہ مہاجرین کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کہا جائے کہ وہ سربیا چلے جائیں۔
ہنگری کی سرحد پر مہاجرین کی ابتر صورتحال
ہنگری میں مہاجرین سے متعلق ریفرنڈم سے قبل اس ریاست کی سرحد پر جمع سینکڑوں مہاجرین کے مصائب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم یہ لوگ انتہائی مشکلات کے باوجود اپنے مہاجرت کے سفر میں شکست تتسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters/L. Balogh
کوئی چارہ گر نہیں
دو اکتوبر بروز اتوار ہنگری میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ یورپی یونین کے کوٹہ سسٹم کے تحت تارکین وطن کو ہنگری کی پارلیمان کی اجازت کے بغیر ملک میں پناہ دینے کے حق میں ہیں؟ وزیر اعظم وکٹور اوربان کی حکمران فیدس پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے سوال کا منفی میں جواب ہی ہنگری کی آزادی اور سالمیت کے حق میں ہو گا۔
تصویر: DW/D. Cupolo
یورپ داخل ہونے کے لیے نیا دروازہ
اس گیٹ کے ذریعے مہاجرین ہنگری کے علاقے کیلیبیا میں داخل ہوتے ہیں۔ سربیا اور ہنگری کی حکومتوں کے مابین ایک ڈیل کے تحت یومیہ بیس مہاجرین کو ہنگری میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان مہاجرین کی سربیا میں رجسٹریشن ہوتی ہے جبکہ ہنگری میں داخل ہونے سے قبل ان کا تفصیلی انٹرویو بھی کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظامی غلطیوں کا احتمال
سربیا سے ہنگری داخل ہونا آسان نہیں۔ اٹھارہ سالہ مصری مہاجر محمد جمال کو اطلاع ملی کہ اس کا اںٹرویو ہونے والا ہے۔ تاہم جب وہ ہنگری پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ انٹرویو اس کا نہیں بلکہ اسی کے ہم نام کسی اور مصری مہاجر کا تھا۔ ہنگری کے حکام کے پاس جمال کا ڈیٹا نہیں کہ آیا وہ سربیا میں داخل ہوا بھی تھا یا نہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظار کی تھکن
انٹرویو کے انتظار میں جمال نے ہنگری کی سرحد سے متصل ایک عارضی کیمپ میں رہائش اختیار کر لی ہے۔ اس کیمپ میں رہنے والے دیگر مہاجرین بھی انٹرویو کے منتظر ہیں۔ وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے بچے ایزدی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو بے یارومدگار یورپ داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سرحدوں کی سخت نگرانی
جمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ہنگری داخل ہونے کے لیے کوئی اور راستہ تلاش کر لے گا۔ اس نے کہا کہ اس مقصد کے لیے وہ انسانوں کے اسمگلروں سے بات چیت کر رہا ہے۔ اس کی ایک ایسی ہی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ ہنگری کی سرحد پر محافظ چوکنا ہیں جبکہ ہیلی کاپٹروں سے نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ جمال کے بقول اگر کوئی مہاجر سرحدی محافظوں سے تیز بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے سدھائے ہوئے کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’یہ جگہ پھر بھی بہتر ہے‘
اربیل میں کار مکینک ولید خالد اپنے بچوں کے ہمراہ ہنگری کی سرحد پر کئی مہینوں سے رہائش پذیر ہے۔ اس کے بچے یہاں کھیلتے رہتے ہیں۔ ولید کا کہنا ہے کہ یہاں کے حالات انتہائی برے ہیں لیکن پھر بھی یہ مقام کئی دیگر علاقوں سے بہتر ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
واپسی کا راستہ نہیں
ہنگری میں کیلیبیا کے مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہے۔ پاکستانی اور افغان مہاجرین ہورگوس نامی ایک دوسرے کیمپ میں سکونت پذیر ہیں۔ خالد کا کہنا ہے کہ وہ کیلیبیا میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ دیگر کیمپوں میں اسے کئی مرتبہ لوٹا جا چکا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگری کی حکومت کا خوف
ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد سے ملکی ثقافت تباہ ہو جائے گی۔ یورپی یونین کی کوشش ہے کہ مہاجرین کو تمام یورپی ملکوں میں ایک کوٹہ سسٹم کے تحت تقسیم کر دیا جائے۔ تاہم اوربان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو کوٹہ سسٹم کے تحت یورپی ممالک میں پناہ دینے کا فیصلہ دراصل ان کے ملک کی قومی خودمختاری کے خلاف ہے۔