ہنگری ميں مسلمانوں کے خدشات جاننے کے ليے معلوماتی واک
عابد حسین
6 نومبر 2017
ہنگری کے دارالحکومت میں مقامی لوگوں میں مسلمانوں اور مساجد کے بارے خصوصی معلوماتی واک کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب ہنگری کی حکومت مہاجرین مخالف پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
اشتہار
ہنگری کے دارالحکومت بوداپسٹ میں یہ معلوماتی واک ایک سیاحتی کمپنی Setamuhely نے شروع کی ہے۔ اس کمپنی نے مختلف نوعیت کی تیس واکس کا پروگرام تیار کیا ہوا ہے اور شرکاء کی پسند کی روشنی میں انہيں ترتيب ديا جاتا ہے۔ ان میں خاص طور پر ہنگری کے شہری شامل ہو رہے ہیں۔
اس معلوماتی واک کے تحت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہودی مذہب اور عبادت خانوں کے بارے میں بھی شرکاء کو تفصیل فراہم کی جاتی ہے۔ اس معلوماتی واک کو ہنگری کے عام لوگوں نے خاص طور پر پسند کیا ہے اور اس باعث ٹور کمپنی کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی ہے۔
معلوماتی واک کا انتظام کرنے والی کمپنی سیٹاموہلی (Setamuhely) کی خاتون سربراہ انا لینارڈ کا کہنا ہے کہ ایسی واک کی مقبولیت میں اضافہ بنیادی معلومات کی فراہمی کی وجہ سے ہوا ہے کیونکہ لوگوں کو مسلمانوں کے مذہب اور مساجد کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کا موقع ملا۔
سیٹاموہلی نامی کپنی نے ان معلوماتی واکس کا سلسلہ تین برس قبل شروع کیا تھا۔ ان واکس میں شریک ہونے والے زیادہ تر مرد تعلیم یافتہ ہیں اور کسی نہ کسی مضمون میں ڈگری حاصل کرچکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مجموعی تعداد میں دو تہائی خواتین ہیں۔
انا لینارڈ کا مزید کہنا ہے کہ ايسی چہل قدمی کے دوران ہنگری کے شہریوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ کسی مسلمان سے ملاقات کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے رہن سہن کو دیکھا۔ لینارڈ نے مزید بتایا کہ ان ملاقاتوں سے اُن کے خدشات و تحفظات میں کمی واقع ہوئی جو وہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ خاتون منتظمہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلمانوں کے بارے ميں آگہی حاصل کرنے سے ہنگری کے لوگوں میں یہ واکس پسند کی جا رہی ہیں۔
ہنگری کی سرحد پر مہاجرین کی ابتر صورتحال
ہنگری میں مہاجرین سے متعلق ریفرنڈم سے قبل اس ریاست کی سرحد پر جمع سینکڑوں مہاجرین کے مصائب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم یہ لوگ انتہائی مشکلات کے باوجود اپنے مہاجرت کے سفر میں شکست تتسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters/L. Balogh
کوئی چارہ گر نہیں
دو اکتوبر بروز اتوار ہنگری میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ یورپی یونین کے کوٹہ سسٹم کے تحت تارکین وطن کو ہنگری کی پارلیمان کی اجازت کے بغیر ملک میں پناہ دینے کے حق میں ہیں؟ وزیر اعظم وکٹور اوربان کی حکمران فیدس پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے سوال کا منفی میں جواب ہی ہنگری کی آزادی اور سالمیت کے حق میں ہو گا۔
تصویر: DW/D. Cupolo
یورپ داخل ہونے کے لیے نیا دروازہ
اس گیٹ کے ذریعے مہاجرین ہنگری کے علاقے کیلیبیا میں داخل ہوتے ہیں۔ سربیا اور ہنگری کی حکومتوں کے مابین ایک ڈیل کے تحت یومیہ بیس مہاجرین کو ہنگری میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان مہاجرین کی سربیا میں رجسٹریشن ہوتی ہے جبکہ ہنگری میں داخل ہونے سے قبل ان کا تفصیلی انٹرویو بھی کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظامی غلطیوں کا احتمال
سربیا سے ہنگری داخل ہونا آسان نہیں۔ اٹھارہ سالہ مصری مہاجر محمد جمال کو اطلاع ملی کہ اس کا اںٹرویو ہونے والا ہے۔ تاہم جب وہ ہنگری پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ انٹرویو اس کا نہیں بلکہ اسی کے ہم نام کسی اور مصری مہاجر کا تھا۔ ہنگری کے حکام کے پاس جمال کا ڈیٹا نہیں کہ آیا وہ سربیا میں داخل ہوا بھی تھا یا نہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظار کی تھکن
انٹرویو کے انتظار میں جمال نے ہنگری کی سرحد سے متصل ایک عارضی کیمپ میں رہائش اختیار کر لی ہے۔ اس کیمپ میں رہنے والے دیگر مہاجرین بھی انٹرویو کے منتظر ہیں۔ وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے بچے ایزدی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو بے یارومدگار یورپ داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سرحدوں کی سخت نگرانی
جمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ہنگری داخل ہونے کے لیے کوئی اور راستہ تلاش کر لے گا۔ اس نے کہا کہ اس مقصد کے لیے وہ انسانوں کے اسمگلروں سے بات چیت کر رہا ہے۔ اس کی ایک ایسی ہی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ ہنگری کی سرحد پر محافظ چوکنا ہیں جبکہ ہیلی کاپٹروں سے نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ جمال کے بقول اگر کوئی مہاجر سرحدی محافظوں سے تیز بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے سدھائے ہوئے کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’یہ جگہ پھر بھی بہتر ہے‘
اربیل میں کار مکینک ولید خالد اپنے بچوں کے ہمراہ ہنگری کی سرحد پر کئی مہینوں سے رہائش پذیر ہے۔ اس کے بچے یہاں کھیلتے رہتے ہیں۔ ولید کا کہنا ہے کہ یہاں کے حالات انتہائی برے ہیں لیکن پھر بھی یہ مقام کئی دیگر علاقوں سے بہتر ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
واپسی کا راستہ نہیں
ہنگری میں کیلیبیا کے مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہے۔ پاکستانی اور افغان مہاجرین ہورگوس نامی ایک دوسرے کیمپ میں سکونت پذیر ہیں۔ خالد کا کہنا ہے کہ وہ کیلیبیا میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ دیگر کیمپوں میں اسے کئی مرتبہ لوٹا جا چکا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگری کی حکومت کا خوف
ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد سے ملکی ثقافت تباہ ہو جائے گی۔ یورپی یونین کی کوشش ہے کہ مہاجرین کو تمام یورپی ملکوں میں ایک کوٹہ سسٹم کے تحت تقسیم کر دیا جائے۔ تاہم اوربان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو کوٹہ سسٹم کے تحت یورپی ممالک میں پناہ دینے کا فیصلہ دراصل ان کے ملک کی قومی خودمختاری کے خلاف ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
8 تصاویر1 | 8
ہنگری میں تقریباً چالیس ہزار مسلمان آباد ہیں۔ اس تعداد میں اضافہ سن 2015 میں مہاجرین کی آمد کے بعد دیکھا گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ہنگری میں آباد زیادہ تر مسلمانوں وہ ہیں، جو برسوں برس قبل وہاں تعلیم حاصل کرنے پہنچے تھے۔
دوسری جانب ہنگری کے تھنک ٹینک تارکی کے مطابق ہنگری کے لوگوں میں غیر ملکیوں سے دوری اور اجانب دشمنی میں اضافہ حالیہ مہینوں میں بڑھا ہے اور یہ ساٹھ فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ دو برس قبل یہ سطح محض انیس فیصد تھی۔